Poetry لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Poetry لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 19 مارچ، 2021

شعری زبان میں انکل شیخ کی درد بھری آہ

’’ انکل شیخ کی درد بھری آہ‘‘

’’ انکل شیخ کی درد بھری آہ‘‘
تم نہیں آتے، ہم ناراض نہیں ہوتے 
پر جب آتے ہو ، ہم پوری رات نہیں سوتے

آتے ہوئے دکان سے دو بسکٹ ہی اٹھا لاتے
چائے  بناتے ، ایک بسکٹ ہم ایک آپ کھاتے

پر تم کیسے ہو کھا جاتے ہو مگر کھانے نہیں دیتے
سو جاتے ہو مزے سے مگر سو جانے نہیں دیتے

رات کٹ رہی ہے اور ماتم بھی جاری ہے
سپنے بھی خسارے کو بھلانے نہیں دیتے 
(مزاح نگار: ابن عطا  - ملتان)

اردو کی نئی غزل ’’ہزاروں خواب کھڑے ہم دیکھیں گے‘‘

’’ہزاروں خواب کھڑے ہم دیکھیں گے‘‘

’’ہزاروں خواب کھڑے ہم دیکھیں گے‘‘ 


آنکھ بھر جب وہ ہمیں  دیکھیں گے 
ہزاروں خواب  کھڑے ہم دیکھیں گے

وہ اپنے ہاتھ میں ہمارا ہاتھ لے لیں گے
اسے کھینچ کر اپنے پاس ہمیں بٹھا لیں گے

وہ کہیں باغ میں ہم سے ٹکرائیں گے
کوئل ، بلبل ، پرند،چرندچہچہائیں گے

گلِ گلاب اور چنبیلی ہم توڑیں گے
انہیں لیے ان کی طرف  دوڑیں گے

کہیں ٹھوکر سے ہمیں جب چوٹ آئے گی
وہ ہمارے آنسو پونچھنے زود دوڑیں گے

وہ اک نظر پھر ہمیں دیکھیں گے 
پھر کئی خواب کھڑے ہم دیکھیں گے

وہ ہمیں اپنے ہاتھوں سے مہ پلائیں گے
اپنی گود میں لیے سر ہمیں سلائیں گے

بس ایک ہی التجا ہے دنیا سے اپنی آثم!
بیدار نہ کرے وگرنہ وہ خفا ہو جائیں گے
(شاعر: عبدالغنی : لاہور)

پیر، 15 مارچ، 2021

ملائک نے کھولے جب اعمال میرے ملیں ہر ورق پر پشیمانیاں ہیں

سھل ممتنع

بڑی باغ دل کی یہ ویرانیاں ہیں 
سجیں گل کی چہرے پہ حیرانیاں ہیں

کہا یہ ’’ جگر‘‘ نے جگر خون کر کے
جدھر دیکھتا ہوں پریشانیاں ہیں

ملائک نے کھولے جب اعمال میرے 
ملیں ہر ورق پر پشیمانیاں ہیں 

دخولِ غمِ روزگار اپنے گھر میں 
مسرت، خوشی پر تو دربانیاں ہیں

فقیہ توانا جدھر چاہے گھومے
نحیفوں پہ واعظ نگہ بانیاں ہیں 

اگرچہ کہ ہیں بادباں اپنے خستہ 
اور اس پر سمندر میں طغیانیاں ہیں

اندھیروں نے قسمت لکھی ہے ہماری 
اور ان کے مقدر میں رعنائیاں ہیں 

ابھی تک مِلن کی کرن اک ہے باقی 
ابھی تک ہماری یہ نادانیاں ہیں

بضد ہیں وہ دانش گریزاں بھی ہم سے 
ہماری طبیعت میں جولانیاں ہیں

(عتیق دانش) 

وہ مجھ کو آزمانا چاہتا ہے دلوں کو پھر ملانا چاہتا ہے

وہ مجھ کو آزمانا چاہتا ہے  دلوں کو پھر ملانا چاہتا ہے  وہ کاغذ پہ سنہرا دل بنا کر  اسی سے دل لگانا چاہتا ہے  مجھے دے کر وہ عنوان نغمگی کا کسی کو گنگنانا چاہتا ہے  اٹھا کر قہر اپنی خوش روی سے مری ہستی مٹانا چاہتا ہے  اندھیرا کر کے اپنے گیسووں کا  دیئے کی لوبڑھانا چاہتا ہے  عجب پاگل ہے اک روتے ہوئے کو وہ ہنس کر ورغلانا چاہتا ہے  بنا کر جال اپنی چلمنوں کا  مجھے اس میں پھنسانا چاہتا ہے  مجھے کہتا ہے مقطع زندگی کا  نتیجہ شاعرانہ چاہتا ہے

ہزج مسدس

وہ مجھ کو آزمانا چاہتا ہے 
دلوں کو پھر ملانا چاہتا ہے

وہ کاغذ پہ سنہرا دل بنا کر 
اسی سے دل لگانا چاہتا ہے

مجھے دے کر وہ عنوان نغمگی کا
کسی کو گنگنانا چاہتا ہے

اٹھا کر قہر اپنی خوش روی سے
مری ہستی مٹانا چاہتا ہے

اندھیرا کر کے اپنے گیسووں کا 
دیئے کی لوبڑھانا چاہتا ہے

عجب پاگل ہے اک روتے ہوئے کو
وہ ہنس کر ورغلانا چاہتا ہے

بنا کر جال اپنی چلمنوں کا 
مجھے اس میں پھنسانا چاہتا ہے

مجھے کہتا ہے مقطع زندگی کا 
نتیجہ شاعرانہ چاہتا ہے

(عتیق دانش۔ لاہور)

نئے شعراء کی بہترین شاعری ’’حسن سانسوں کے درمیاں اترا‘‘

 حسن سانسوں کے درمیاں اترا


وزن:فاعلاتن مفاعلن فعلن

حسن سانسوں کے درمیاں اترا

شب گزیدہ پہ اک نشاں اترا


باد پہلے سے ہی مخالف تھی

اس پہ ناؤ کا بادباں اترا


دل کی جاگیر اس پہ واری ہے

ارض لب پر ہے پاسباں اترا


میرے آنگن میں چُورچُور بدن

غم کی لے کر ہے داستاں اترا


غنچہء زیست کھل گیا آخر

اس کا باعث جو باغباں اترا


کچھ تو درماں بتاؤ نا دانش 

درد دامن میں کیوں نہاں اترا

(عتیق دانش۔ لاہور پاکستان)

اتوار، 14 مارچ، 2021

سامنے جب چہرہ دلدار کا ہو

سامنے جب چہرہ دلدار کا ہو 

حسن کردار کا ہو، گفتار کا ہو
بس یہی روپ میرے یار کا ہو

جو دل کو بھائے وہی اچھا ہمیں 
چاہے اس سے لاکھ گلہ اغیار کا ہو

تو ساتھ ہے پھر کیا تمنا کریں
موسم خزاں کا چاہے بہار کا ہو

اور کس کے خواب دیکھیں گے
سامنے جب چہرہ دلدار کا ہو

بیچنا پڑے ایمان جس کے عوض 
خاک فائدہ ایسے سنگھار کا ہو

کیا اچھا ہو کہ ہم بے گھر ہوں
اور نصیب سایہ تیری دیوار کا ہو

خدا کرے ہم مر جائیں اس گھڑی 
وقت جب غیر سے تیرے اقرار کا ہو

جس کی دوا تیری دید ہو، شنید ہو
علاج کچھ نہ کچھ تو ایسے بیمار کا ہو

نثر میں ابھی طفل مکتب ہے ناسق
چلو مقابلہ اک تحریر اشعار کا ہو
(زاہد ناسق)

جمعہ، 12 مارچ، 2021

ذکر غیر کا تیری زباں سے اچھا نہیں لگتا

غزل (زاہد ناسق)

ذکر غیر کا تیری زباں سے اچھا نہیں لگتا

مکیں کو نکالے مکاں سے اچھا نہیں لگتا


یقیں کر میں خود کو یکسر بدل ڈالوں گا

بتا! میں تجھے کہاں سے اچھا نہیں لگتا


کرنا ہے گر میری محبت کا یقیں توکر لے

گزروں ہر بار امتحاں سے اچھا نہیں لگتا 


تھی انتہا تیرے ہاتھوں مقدر سو کر ابتدا

تیرنکلے غیر کی کماں سے ، اچھا نہیں لگتا 


یہ جو پیوست ہو گیا انا کا شجر ہمارے بیچ 

اکھڑ جائے کاش درمیاں سے ، اچھا نہیں لگتا 


کرتا ہوں صرف اجڑے ہووں سے الفت 

موسم کوئی زیادہ خزاں سے اچھا نہیں لگتا 


کرتا ہے فرش کا مکیں ہو کر عرش سے لڑائی 

ناسق گلہ باربار آسماں سے اچھا نہیں لگتا

اس کا وعدہ فقط وعدہ ہی رہا

اس کا وعدہ فقط وعدہ ہی رہا 

 پھٹا ہوا پہنے اک لبادہ ہی رہا 

رنگینی میں بھی سادہ ہی رہا 


کرتا رہا جو دوسروں کو مکمل 

زندگی بھر وہ خود آدھا ہی رہا 


اب کسی اور آنگن میں چمکتا ہے

اپنا کہنے جس کو ارادہ ہی رہا 


سنا ہے آجکل ہواؤں میں اڑتا ہے 

اک میں ہوں کہ پاپیادہ ہی رہا 


افسوس کیا نہ اس نے پاسِ وفا

اس کا وعدہ فقط وعدہ ہی رہا 


ڈرتا تھا وہ شخص خسارے سے

عشق میں بھی مقصد افادہ ہی رہا


نہ ہو وصال، تو کہاں کم ہوتا ہے؟ 

عشق تھا ناسق، سو زیادہ ہی رہا

(زاہد ناسق)

پشاور میں شہید بچوں کے نام

اداس اب مجھے ہر گھر لگتا ہے   ڈوبا ہوا اندھیرے میں شہر لگتا ہے     میں کروں کیا یاد عشق محبت کو   اب تو اکثر دسمبر میں ڈر لگتا ہے    کیا ان بچوں پہ ٹوٹنی تھی قیامت   دیکھنے میں بپا اک حشر لگتا ہے    دوں کتنی ماؤں کو جا کر دلاسا میں   یہاں ہر ممتا کا چھلنی جگر لگتا ہے     مسل کر پھول جو طلبگار ہے جنت کا  یقیں کر مجھے تو اہل سقر لگتا ہے    کتابیں کہیں جوتے سرخ پڑے ہیں   یہاں خوں کا برستا ہوا ابر لگتا ہے    پھر سے بچے کو پہنا رہی ہے بستہ تو   ماں تیرا عزم پر جوش سمندر لگتا ہے    سمجھتا ہے چند گولیاں چلا کر ناداں   ہم ابھی بچے ہیں، اور ہمیں ڈر لگتا ہے    کٹ تو جائے گا ناسق اشک بہاتے   ورنہ مشکل اب زندگی کا سفر لگتا ہے
سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے
پشاور میں شہید بچوں کے نام

 اداس اب مجھے ہر گھر لگتا ہے 

ڈوبا ہوا اندھیرے میں شہر لگتا ہے 


میں کروں کیا یاد عشق محبت کو 

اب تو اکثر دسمبر میں ڈر لگتا ہے


کیا ان بچوں پہ ٹوٹنی تھی قیامت 

دیکھنے میں بپا اک حشر لگتا ہے


دوں کتنی ماؤں کو جا کر دلاسا میں 

یہاں ہر ممتا کا چھلنی جگر لگتا ہے 


مسل کر پھول جو طلبگار ہے جنت کا

یقیں کر مجھے تو اہل سقر لگتا ہے


کتابیں کہیں جوتے سرخ پڑے ہیں 

یہاں خوں کا برستا ہوا ابر لگتا ہے


پھر سے بچے کو پہنا رہی ہے بستہ تو 

ماں تیرا عزم پر جوش سمندر لگتا ہے


سمجھتا ہے چند گولیاں چلا کر ناداں 

ہم ابھی بچے ہیں، اور ہمیں ڈر لگتا ہے


کٹ تو جائے گا ناسق اشک بہاتے 

ورنہ مشکل اب زندگی کا سفر لگتا ہے

ہارا عشق کے کربلا میں سو میں کافر ہوں

ہارا عشق کے کربلا میں سو میں کافر ہوں

چھوڑ گیا بیچ راہ میں ، سو میں کافر ہوں 
درد نہیں اب دعا میں ، سو میں کافر ہوں

 

گر چاہتا میں تو صلح ہو بھی سکتی تھی 
خوش رہا اپنی انا میں ، سو میں کافر ہوں

 
اہلِ کوفہ سے ملتی جلتی ہیں عادتیں میری 
ہارا عشق کے کربلا میں ، سو میں کافر ہوں

 
تھی پہلے بھی تجھ سے گلے ملنے کی چاہت 
قائم ہے چاہت وبا میں ، سو میں کافر ہوں 


ناسق عشق میں چلنا ہوتا ہے آبلوں کے ساتھ 
تھک گیا ہوں ابتدا میں ، سو میں کافر ہوں

(زاہد ناسق)

پیر، 8 مارچ، 2021

چاہا تھا یہ معاملہ ہوتا حجاب میں

حجاب میں

 چاہا تھا یہ معاملہ  ہوتا حجاب میں

لیکن کوئی تھا بن گیا ہڈی کباب میں


کمسن ہیں شاید اس لیے گفتار کی ہمیں

جرأت کہاں ہے شوکتِ عزت مآب میں


کرتا اگر بہار کا گُلچین اعتبار

پڑتے کبھی نہ بلبل و گل اِس عذاب میں


ایسا قدم اُٹھانے سے پہلے یہ سوچنا

گزرے نہ پھر کسی کی عُمَر اضطراب میں


مجھ سے تحفظات کا دعوٰی عجیب تھا

یہ ڈر کہ میں مِلا دوں گا عزّت تراب میں


تشہیر کر رہا ہے یہ "منہ پھٹ" جہان میں

لو، چھا گئے ہیں آپ بھی حُسنِ خطاب میں


جیتے رہے عوام کی مانند آپ میں

دیکھا مجھے ہے آپ نے کب آب و تاب میں؟! 


وحشت سے تنگ دل نے یہ چاہا ہے بارہا

کِردار سارے کھول دوں جو ہیں نقاب میں


گرمی ملی مزاج کی ہم کو وِراثتًا

*شاہد* کو بھول کر بھی نہ لانا عتاب میں

ہفتہ، 6 مارچ، 2021

مجھ پر غزلیں لکھنا چھوڑ دو ، اچھا ہوگا

مجھ پر غزلیں لکھنا چھوڑ دو ، اچھا ہوگا  ربط جو بھی ہیں باقی، توڑ دو، اچھا ہوگا    یادوں کا ڈس رہا ہے جو سانپ گاہے گاہے  اسکا سر اک بار ہی پھوڑ دو، اچھا ہوگا    پتھر سے ہوتا ہوتا میں چٹان ہوگیا ہوں   کہیں اور اشک کا دریا موڑ دو اچھا ہوگا    کی میں نے چند شیشہ گروں سے یہ التجا  ٹوٹا ہے جو دلِ ناسق جوڑ دو، اچھا ہوگا  (شاعر: زاہد احمد ناسق)
غزل لکھتے ہوئے😅
 مجھ پر غزلیں لکھنا چھوڑ دو ، اچھا ہوگا


 مجھ پر غزلیں لکھنا چھوڑ دو ، اچھا ہوگا

ربط جو بھی ہیں باقی، توڑ دو، اچھا ہوگا


یادوں کا ڈس رہا ہے جو سانپ گاہے گاہے

اسکا سر اک بار ہی پھوڑ دو، اچھا ہوگا


پتھر سے ہوتا ہوتا میں چٹان ہوگیا ہوں 

کہیں اور اشک کا دریا موڑ دو اچھا ہوگا


کی میں نے چند شیشہ گروں سے یہ التجا

ٹوٹا ہے جو دلِ ناسق جوڑ دو، اچھا ہوگا

(شاعر: زاہد احمد ناسق)

سنا تھا شاعر اتنے پیارے نہیں ہوتے

ہم سے مبہم سے اشارے نہیں ہوتے   سنو ایسے تو ہم تمہارے نہیں ہوتے    ہے محبت تو اٹھ ، چل ساتھ میرے  عشق میں کبھی استخارے نہیں ہوتے    ہوتے ضرور ہیں یہ خستہ حال مگر   عاشق اتنے بھی بیچارے نہیں ہوتے    خدا بچائے پیار، محبت کے گناہوں سے   تا عمر ادا ان کے کفارے نہیں ہوتے     اکثر کو یہاں رسمِ دنیا مار دیتی ہے   ورنہ بے وفا تو یہاں سارے نہیں ہوتے     ہوا بھی اس کی زلف سجایا کرتی ہے  ورنہ گیسو اتنے سنوارے نہیں ہوتے     تم تو اچھے خاصے خوش شکل ہو ناسق   سنا تھا شاعر اتنے پیارے نہیں ہوتے
یہ ایموجی مقطع کلام کی نذر

😇سنا تھا شاعر اتنے پیارے نہیں ہوتے😏

(شاعر:زاہد احمد ناسق)

ہم سے مبہم سے اشارے نہیں ہوتے 

سنو ایسے تو ہم تمہارے نہیں ہوتے


ہے محبت تو اٹھ ، چل ساتھ میرے

عشق میں کبھی استخارے نہیں ہوتے


ہوتے ضرور ہیں یہ خستہ حال مگر 

عاشق اتنے بھی بیچارے نہیں ہوتے


خدا بچائے پیار، محبت کے گناہوں سے 

تا عمر ادا ان کے کفارے نہیں ہوتے 


اکثر کو یہاں رسمِ دنیا مار دیتی ہے 

ورنہ بے وفا تو یہاں سارے نہیں ہوتے 


ہوا بھی اس کی زلف سجایا کرتی ہے

ورنہ گیسو اتنے سنوارے نہیں ہوتے 


تم تو اچھے خاصے خوش شکل ہو ناسق 

سنا تھا شاعر اتنے پیارے نہیں ہوتے 

سیمیں بدن سا چاند فلک سے اُتر گیا

نکلا نہیں وہ بام پہ، ہائے کدھر گیا؟  سیمیں بدن سا چاند  فلک سے اُتر گیا     مجھ سے براہ راست ہی دریافت کیجئے  ذہنِ رسا میں کونسا خطرہ اُبھر گیا...    بھوکا جو ایک وقت کی روٹی نہ پا سکا  میسج مِلا نہ کال، مَیں فاقوں سے مر گیا    اس بے نیاز موسمِ گلشن کو دیکھ کر  میری طرف سے پھول بھی شام و سحر گیا    غفلت میں ہو کے بھی رہا میں باخبر، جناب!   یہ مت سمجھنا سو گیا تو بے خبر گیا     تیری بنائی چائے سے مستی نہ کیوں چڑھے   میرے بدن کی آخری رَگ تک اثر گیا    میسج پہ میرے دکھ بھرا پیغام دے گا وہ  کیسے کہوں کہ دوستو اب دردِ سر گیا    نخروں کا ہے وہ دوستو بے داد بادشاہ   شاہد بھی گنگناتا یہ ساری عُمر گیا
غزل (محمد اسامہ شاہد)

 نکلا نہیں وہ بام پہ، ہائے کدھر گیا؟

سیمیں بدن سا چاند  فلک سے اُتر گیا 


مجھ سے براہ راست ہی دریافت کیجئے

ذہنِ رسا میں کونسا خطرہ اُبھر گیا...


بھوکا جو ایک وقت کی روٹی نہ پا سکا

میسج مِلا نہ کال، مَیں فاقوں سے مر گیا


اس بے نیاز موسمِ گلشن کو دیکھ کر

میری طرف سے پھول بھی شام و سحر گیا


غفلت میں ہو کے بھی رہا میں باخبر، جناب! 

یہ مت سمجھنا سو گیا تو بے خبر گیا 


تیری بنائی چائے سے مستی نہ کیوں چڑھے 

میرے بدن کی آخری رَگ تک اثر گیا


میسج پہ میرے دکھ بھرا پیغام دے گا وہ

کیسے کہوں کہ دوستو اب دردِ سر گیا


نخروں کا ہے وہ دوستو بے داد بادشاہ 

شاہد بھی گنگناتا یہ ساری عُمر گیا

جمعہ، 5 مارچ، 2021

دلِ نامُراد سنبھل کے چل، تجھے راستوں کی خبر کہاں

غزل (محمد اسامہ شاہد )

نہ جَلا جو سوزشِ اَشک سے، اُسے دل جلوں کی خبر کہاں

دلِ نامُراد سنبھل کے چل، تجھے راستوں کی خبر کہاں


مِرے دوش پر کوئی ہاتھ رکھ کے مجھے بھی دے ذرا حوصلہ

میں شکستہ ناؤ کے بیچ ہوں، مجھے ساحلوں کی خبر کہاں


اُسے کیا بتائے گا ہم سفر، جسے راستوں کی سمجھ نہ ہو

رہِ خاردار ہے سامنے، اُسے منزلوں کی خبر کہاں


تِرے غمزے، لہجے، نگاہ نے تو ستم کدہ ہی بنا دیا

تجھے اِس ادا کی تو فکر ہے، وہ ستمزدوں کی خبر کہاں


مُجھے اُس نے چُپ کے جواب میں، وہیں جاں دہی سے ڈرا دیا

وہ ہے طفلِ مکتبِ زندگی، اُسے عاشقوں کی خبر کہاں


نہ ہوئے تھے ہم یہاں اس قدر غمِ یار سے کبھی اشکبار

وہ جو پلکیں ابرِ رواں سی تھیں، اُنہیں بادلوں کی خبر کہاں


جو نہ پی سکے یہاں رات بھر، اُسے یاں پہ رہنا حرام ہے

یہاں رِند ہیں سبھی، شیخ جی! اِنہیں مسجدوں کی خبر کہاں

جمعرات، 4 مارچ، 2021

بہارِ اُلفت میں خاک پر کِھلتا تازہ تازہ گلاب تم ہو

بہارِ اُلفت میں خاک پر کِھلتا تازہ تازہ گلاب تم ہو
 

بہارِ اُلفت میں خاک پر کِھلتا تازہ تازہ گلاب تم ہو

میرے تعلق میں کوئی پوچھے ،سوال تم ہو جواب تم ہو


حسین چہرے بہت ہیں لیکن تمہارے جیسا کہاں ہے کوئی

کُھلی ہوئی آنکھ سے کسی نے جو دیکھا ہو ایسا خواب تم ہو


اگر شریعت محبتوں کی بھی عائد ہوتی ہے اِس جہاں میں

تمہارا نام جو لے رہا ہوں تو حرف حرف ثواب تم ہو


دوا جو میرے غم دبانے کی آرزو میں حلق سے اُترے

پھلوں سے جنت کے رِسنے والی وہ تازہ ٹھنڈی شراب تم ہو


تمہیں کہاں پر یہ ڈھونڈتے ہیں، کوئی تو ہم سے بھی آ کے پوچھے

مکانِ شاہد کو کُھلنے والا ہر اِک دریچہ و باب تم ہو

نام شاعر:-اسامہ شاہد

کھائے دھوکہ نہ کبھی عمدہ بیانی سے کوئی

کھائے دھوکہ نہ کبھی عمدہ بیانی سے کوئی
 

ہم تو اشکوں سے بھی ناراض نظر آتے ہیں

میری آنکھوں کو یہ اعجازِ مَکر آتے ہیں


لے چلا عشق ہمیں منزلِ جاناں کی طرف

سر جھکائے ہوئے مرعوبِ  اثر آتے ہیں


قاصدوں کو بھی سر آنکھوں پہ بِٹھا رکھا ہے

یہ فرشتے جو یہاں لے کے خبر آتے ہیں


ہم نے نازُک تو ہے جانا، مگر اتنا ہی نہیں

خار تو گُل کے لئے بہرِ ستر آتے ہیں


کارِ دُنیا سے الگ ہو تے ہی فرصت کی گھڑی

مطمئن تیری طرح ہم بھی نظر آتے ہیں


کھائے دھوکہ نہ کبھی عمدہ بیانی سے کوئی

اچھے شاعر کو بہت ایسے ہُنر آتے ہیں


یہ زمانے کو بُرا کہنا  بھی عادت میں نہیں

اُن کو "قسمت" کے یہ اوصاف نظر آتے ہیں


جیسے شاہد پہ تھے بگڑے وہ اچانک سے وہاں

ہم تھے سمجھے یہ نصیبوں سے گُہر آتے ہیں

مارا قتیل نے اُنہیں کس بے دلی کے ساتھ

مارا  قتیل نے اُنہیں کس بے دلی کے ساتھ
 

آواز آ رہی ہے کسی کی ہنسی کی آج

راہیں چمک رہی ہیں کسی کی گلی کی آج


چکرا رہے ہیں طیش میں آکر جو مہر و ماہ

دیکھی ہے ہم نے چاندنی صورت کسی کی آج


مارا  قتیل نے اُنہیں کس بے دلی کے ساتھ

باتیں جو کر رہے تھے یہاں دل لگی کی آج


بہکے ہیں کتنے راہ میں، پوچھو تو نام لیں

غزلیں سنو گے عالمِ آوارگی کی آج


ہے تازگی چمن میں وہ دیکھی نہیں کبھی

کوئی دکھا رہا ہے ادا دلبری کی آج


ڈھلکے نہ جام ہاتھ سے زنہار مےکشو

حالت بھی ہو خراب اگرچہ سبھی کی آج


شاہد سے لوگ پوچھتے ہیں وجہِ بے خودی

کہتا ہے یاد آئی ہے شاید کسی کی آج

Featured Post

مجھ پہ جو بیتی : اردو کی آپ بیتی

  اردو کی آپ بیتی تمہید چار حرفوں سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔ لشکری چھاؤنی میرا جنم بھوم [1] ہے۔ دوسروں کو قدامت پہ ناز ہے اور مجھے جِدَّ...