Memoir(Aap-beeti) لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Memoir(Aap-beeti) لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 19 فروری، 2021

ہوسٹل کی زندگی

انسان کو نیست سے ہست میں آ جانے کے ساتھ ہی زیست کے تمام ہو جانے تک بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ہر روز ایک نیا ہدف نئی مشکلات کے ساتھ اس کا منتظر ہوتا ہے. کچھ میں تو اس کے عزیز و اقارب اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور کچھ میں وہ تنہا ہوتا ہے.اور کیونکہ ہم غاروں میں نہیں رہتے بلکہ معاشرے میں رہتے , لوگوں سے کسی نہ کسی طرح ہمارا واسطہ رہتا ہے اس لیے اکثر اہداف ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم دوستوں کے ساتھ مل کر حاصل کرتے ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مضبوط عزم و ہمت کے پیکر بن جائیں اور خواہ کیسی ہی مشکل آ جائے اور کیسی ہی بلا نازل ہو جائے ہم ثابت قدم رہیں. تجربہ سے اکثر اس بات کے شاہد ہوں گے کہ جو ہدف جتنا مشکل سے حاصل ہوتا ہے اس کے بعد اتنا ہی انسان مسرت اور فرحت محسوس کرتا ہے.  جیسے ہائیکنگ کرنے والے جانتے ہیں کہ پہلی دفعہ ہائیکنگ کرتے ہوئے وہ کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتا ہے کہ آئندہ کبھی ہائیکنگ نہیں کروں گا لیکن جب وہ واپس آتا ہے تو وہ ان دنوں کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتا ہے. اور مقرر جانے کی خواہش کرتا ہے.

 ہوسٹل کی زندگی

انسان کو نیست سے ہست میں آ جانے کے ساتھ ہی زیست کے تمام ہو جانے تک بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ہر روز ایک نیا ہدف نئی مشکلات کے ساتھ اس کا منتظر ہوتا ہے. کچھ میں تو اس کے عزیز و اقارب اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور کچھ میں وہ تنہا ہوتا ہے.اور کیونکہ ہم غاروں میں نہیں رہتے بلکہ معاشرے میں رہتے , لوگوں سے کسی نہ کسی طرح ہمارا واسطہ رہتا ہے اس لیے اکثر اہداف ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم دوستوں کے ساتھ مل کر حاصل کرتے ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مضبوط عزم و ہمت کے پیکر بن جائیں اور خواہ کیسی ہی مشکل آ جائے اور کیسی ہی بلا نازل ہو جائے ہم ثابت قدم رہیں. تجربہ سے اکثر اس بات کے شاہد ہوں گے کہ جو ہدف جتنا مشکل سے حاصل ہوتا ہے اس کے بعد اتنا ہی انسان مسرت اور فرحت محسوس کرتا ہے.  جیسے ہائیکنگ کرنے والے جانتے ہیں کہ پہلی دفعہ ہائیکنگ کرتے ہوئے وہ کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتا ہے کہ آئندہ کبھی ہائیکنگ نہیں کروں گا لیکن جب وہ واپس آتا ہے تو وہ ان دنوں کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتا ہے. اور مقرر جانے کی خواہش کرتا ہے.
میری زندگی بھی ان تجربوں سے لطف اندوز ہوئی. میری زندگی کا سب سے مشکل اور سب سے بڑا ہدف سادہ اور شریف ہونے کی حالت میں ہوسٹل رہنا تھا اور وہ بھی سات سال. ہم کچھ دوست ایک یونیورسٹی محض حصول علم کی خاطر داخل ہوگئے۔ یہ یونیورسٹی دنیا کی منفرد اور انوکھی یونیورسٹیز میں سے ہے.کوائف جمع کروانے کی غرض سے  ہمیں یونیورسٹی جانا تھا

لیکن جب ہم پہنچے تو پہلی ہدایت اور یونیورسٹی میں رہنے کی شرط یہ ٹھہری کہ بوری بستر اُٹھا کر آج ہی ہوسٹل منتقل ہو جائیں۔یہ ہدایت سنتے ہی ہمارے معصوم, خوبصورت اور پررونق چہروں پر خزاں آ گئی اور وہ چار دن سے پڑے سالن کی طرح باسی ہو گئے اور جیسے روٹی پر پھپھوندی لگ گئی ہو۔ افسردہ حال گھر پہنچ کر بادل ناخواستہ, لاشعور میں بیٹھے الفاظ کو جوڑ کر اور تسلی دیتے ہوئے کہ وہ پریشان نہ ہوں یہ بات اہل خانہ کو بتائی کہ مجھے ہوسٹل رہنا پڑے گا. لیکن یہ دیکھ کر میرا دل چکنا چور ہوگیا کہ میرے اہل خانہ کے چہرے خوشی سے چمک دمک اٹھے ہیں اور شکرانہ ادا کرنے کے انہوں نے عہد و پیمان باندھ لیے ہیں۔ میرے دوستوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا. نہ چاہتے ہوئے بھی بوری بسترا اُٹھایا اور ہوسٹل شفٹ ہوگئے۔۔۔جاری


جمعرات، 18 فروری، 2021

"مجھ پہ جو بیت رہی ہے"

 
🙏🙏😭😭 پہیلی نمبر 1 اِک ذرہ سے جنم لے کر مثل جبل [1]بن جاتا ہوں ۔چار حرفوں کی تالیف سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔میں سطح زمین سے نیچے بھی ہوں اور اوپر بھی۔مجھے خداوند نے بے جان پیدا نہیں کیا ۔میرا مولد[2] ہی میرا گھر،میرا ٹھکانا ہے ۔لیکن بسا اوقات مجھے خلق خدا گھربدر بھی کردیتی ہے۔نوجوانی تک مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہوتا ہے۔ میں وجود میں آنے سے فنا ہونے تک نفع بخش اور سود مند ہوں۔میں حسین بھی ہوں اور حسن بخش بھی۔آلودگی سے مجھے نفرت ہے۔میرا شوخ رنگ بھی قابل دیداور ہلکا ہلکا رنگ بھی تفرید۔میں زہر بھی ہوں اور اکسیر بھی۔اطباء مجھ سے مستفید ہوتے ہیں ۔ بزرگ اور ولی مجھ سے سبق اور نمونہ حاصل کرتے ہیں اور مجھے وعظ میں استعمال کرتے ہیں ۔ میری مثالیں کلام الٰہی میں بھی ملتی ہیں۔ مختلف رنگ مجھ سے جنم لیتے ہیں۔مٹھاس بھری،ترش اورکچھ کڑوی چیزیں میرے توسط سےمیسر ہیں۔ میری زیست کا انحصار پانی اور روشنی پر ہے ۔ میں بارشوں کا سبب بنتا ہوں۔میں مرنے کے بعد بھی بے شمار مخلوق کا معاون ہوں ۔ امیر و غریب کا رزق مجھ سے بندھا ہوا ہے ۔ میں ہر گھر میں ہوں ۔ مجھے پیس کر سانچے میں ڈھالنے کے بعد علماء کی قلم کی سیاہی کو مقید کیا جاتا ہے ۔مجھے چیر کر اور کاٹ کر مختلف چیزوں میں ڈھالا جاتا ہے۔ بیٹھنے ،لیٹنے اور بوڑھوں کے سہارے کا م آتی ہوں۔گھر کا پردہ اور اس کی حفاظت مجھ سے ہے۔ جب مجھ سے کوئی اور کام نہ بن پڑےتو میں کھانے اور چپاتی بنانے اور  ٹھٹھرتی ہواوں اور برف باری میں حرارت اور گرمائش کے کام آجاتا ہوں۔میری کھال[3] دانتوں کو صاف کرتی ہےاوربال صحن،گلی ، کوچوں کو صاف کرتے ہیں۔میں انسانوں اور جانوروں کی ہی نہیں بلکہ کیڑوں مکوڑوں کی بھی خوراک بنتا ہوں۔ لیکن !ہائے افسوس! بہت سے ابنائے آدم  سب کچھ حاصل کرکے بھی میری  زیست سے نفرت کرتے ہیں۔میرے وجود سے ان کے زعم میں زمین تنگ پڑتی ہے اور اسراف ہوتا ہے۔ (کالم نگار:۔ اردو) نوٹ:۔ جن قارئین کو میرا نام معلوم ہے وہ کمنٹ میں لکھ دیں۔  [1] پہاڑ [2] جائے پیدائش [3] تمثیلی طور پر استعمال کیا ہے

🙏🙏😭😭

درخت کی کہانی 

اِک ذرہ سے جنم لے کر مثل جبل [1]بن جاتا ہوں ۔چار حرفوں کی تالیف سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔میں سطح زمین سے نیچے بھی ہوں اور اوپر بھی۔مجھے خداوند نے بے جان پیدا نہیں کیا ۔میرا مولد[2] ہی میرا گھر،میرا ٹھکانا ہے ۔لیکن بسا اوقات مجھے خلق خدا گھربدر بھی کردیتی ہے۔نوجوانی تک مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہوتا ہے۔
میں وجود میں آنے سے فنا ہونے تک نفع بخش اور سود مند ہوں۔میں حسین بھی ہوں اور حسن بخش بھی۔آلودگی سے مجھے نفرت ہے۔میرا شوخ رنگ بھی قابل دیداور ہلکا ہلکا رنگ بھی تفرید۔میں زہر بھی ہوں اور اکسیر بھی۔اطباء مجھ سے مستفید ہوتے ہیں ۔ بزرگ اور ولی مجھ سے سبق اور نمونہ حاصل کرتے ہیں اور مجھے وعظ میں استعمال کرتے ہیں ۔ میری مثالیں کلام الٰہی میں بھی ملتی ہیں۔
مختلف رنگ مجھ سے جنم لیتے ہیں۔مٹھاس بھری،ترش اورکچھ کڑوی چیزیں میرے توسط سےمیسر ہیں۔
میری زیست کا انحصار پانی اور روشنی پر ہے ۔ میں بارشوں کا سبب بنتا ہوں۔میں مرنے کے بعد بھی بے شمار مخلوق کا معاون ہوں ۔ امیر و غریب کا رزق مجھ سے بندھا ہوا ہے ۔ میں ہر گھر میں ہوں ۔
مجھے پیس کر سانچے میں ڈھالنے کے بعد علماء کی قلم کی سیاہی کو مقید کیا جاتا ہے ۔مجھے چیر کر اور کاٹ کر مختلف چیزوں میں ڈھالا جاتا ہے۔ بیٹھنے ،لیٹنے اور بوڑھوں کے سہارے کا م آتی ہوں۔گھر کا پردہ اور اس کی حفاظت مجھ سے ہے۔
جب مجھ سے کوئی اور کام نہ بن پڑےتو میں کھانے اور چپاتی بنانے اور  ٹھٹھرتی ہواوں اور برف باری میں حرارت اور گرمائش کے کام آجاتا ہوں۔میری کھال[3] دانتوں کو صاف کرتی ہےاوربال صحن،گلی ، کوچوں کو صاف کرتے ہیں۔میں انسانوں اور جانوروں کی ہی نہیں بلکہ کیڑوں مکوڑوں کی بھی خوراک بنتا ہوں۔
لیکن !ہائے افسوس! بہت سے ابنائے آدم  سب کچھ حاصل کرکے بھی میری  زیست سے نفرت کرتے ہیں۔میرے وجود سے ان کے زعم میں زمین تنگ پڑتی ہے اور اسراف ہوتا ہے۔
(کالم نگار:۔ اردو)
نوٹ:۔ جن قارئین کو میرا نام معلوم ہے وہ کمنٹ میں لکھ دیں۔


[1] پہاڑ
[2] جائے پیدائش
[3] تمثیلی طور پر استعمال کیا ہے۔

بدھ، 17 فروری، 2021

مجھ پہ جو بیتی : اردو کی آپ بیتی

 

اردو کی آپ بیتی

تمہید

چار حرفوں سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔ لشکری چھاؤنی میرا جنم بھوم [1]ہے۔ دوسروں کو قدامت پہ ناز ہے اور مجھے جِدَّت پہ فخر۔ میرا ظرف بڑا ہے اور میری جڑیں گہری اور چار دانگ[2] عالم میں پھیلی ہوئیں۔ ولیوں سےمیرا گہرہ تعلق ہے اور شعراء و اہل ادب سے سنگین سنگت۔ میں عشق مجازی کی ہی نہیں ، عشق حقیقی کی بھی مٹھاس ہوں اور میری مٹھاس گُڑ اور شکر سے بڑھی ہوئی ہے۔

میں اپنے معاندین کو اپنی الفت و مودت اور کچھ مصالحت سے اپنے اندر جذب کر لیتی ہوں۔

فرنگیوں اور اجنبیوں نے مجھ پر تیغ و تفنگ سے وار کیے اور مجھے ختم کر دینے میں کوئی حربہ نہ چھوڑا۔ لیکن وہ شکست خوردہ، نادم اور نامراد ہوئے۔ جبکہ مجھے کامیابی و کامرانی عطا کی گئی۔ جب اس منصوبہ میں منہ کے بل گرے تو انہوں نے قید و بند کی صعوبتوں میں گھیر لینا چاہا کہ وہ مجھے بیڑیاں اور طوق پہنا کر نظر بند کر دیں۔ لیکن قادر کی قدرت دیکھئے ۔ اس نے جو چاہا وہ ہوا۔ اس نور نے مجھے نَیّر بنا دیا اور میری کرنوں کو اکناف عالم میں پہنچا دیا۔

اب میں ایسی بڑھی اور پھلی پھولی ہوں کہ مجھے نہ ڈر ہے عَدُوّ کا اور نہ خوف ہے کسی معاند کا۔

لیکن ! حیف ! مجھے خطرہ ہے میرے اپنوں سے، اپنے اہل سے اور اپنے قرابت داروں سے، جنہوں نے گھر کی مرغی کو دال برابر سمجھا اور غیروں سے مرعوب خاطر ہو گئے۔

 مجھے اپنے عنفوان شباب میں ہی نحیف و ناتواں  بنایا جا رہا ہے۔ اے میرے اپنے! مار آستین! مجھے کیوں ڈس رہے ہو؟ مجھے معلوم ہے میری اکسیر بھی تمہارے پاس ہے۔

اے میرے اپنے! کیا تم میرے درد کی دوا بنو گے؟ مجھے راحت و آرام دو گے؟ سکون و اطمینان بخشو گے؟ سَم قاتل کی تریاق بنو گے؟

اے میرے قاری! میں کس کی اہل ہوں؟ کون میری قربت کا حقدار؟ میں کون ہوں ؟ میرے ساتھ کیا بیتی ؟

اے میرے چاہنے والے! مجھے تلاش کر۔ کیونکہ جس کو کسی کی چاہ ہو وہ اس کا متلاشی ہو جاتا ہے۔

مجھے بولو تو خالص مجھے بولو اور بار بار بولو ۔ مجھے لکھو تو محض مجھے لکھو۔ اور بار بار لکھو۔ کیونکہ میں تمہاری ہوں ۔ تمہاری اپنی زبان ۔ میں ہوں اردو۔

نوٹ:۔ یہ میری کہانی کی تمہید تھی ۔ اب قسط وار میں اپنا قصہ بیان کروں گی ۔ جو مجھے چاہتا ہے اور بطیب خاطر چاہتا ہے وہ مجھے پڑھے اور بار بار پڑھے۔

(کالم نگار: اردو)



[1] جنم بھوم:۔ جائے پیدائش۔ مقامِ پیدائش۔

[2] چار دانگ:۔ چاروں سمت۔ ہر طرف۔

سفر نامہ بنام "سائِکل سفر"


ایک روز قبل :  خاکسار اتوار کی چھٹی اکثر شہر سے باہر  گزارہ کرتاتھا  اوراس بار    دفتر سے واپس گھر آتے ہی مییسجز پر کسی سے بات کرنے میں مصروف ہوگیا۔ کیونکہ حافظ نامی دوست  کو قائل کرنے کی کوشش کررہاتھا  کہ سرگودھا کے پہاڑوں میں پوشیدہ ایک جھیل جو کہ کیرانہ جھیل کے نام سے موسوم ہے اس کی سیر کرنے کے لئے سائیکل سفرکیا جائے۔ سائیکل کے ساتھ میرا  رشتہ بہت پرانا تھا لیکن سائیکل کے ساتھ میری کوئی خوشگوار یاد وابستہ نہیں تھی ۔ بالاخرمیں اپنےدوست کو اس پُرمشقت سائیکل سفر کرنے کے لئے اس شرط پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ  ناشتہ میری طرف سے ہوگا ۔اب  مشکل یہ تھی  کس طرح مزید تین دوستوں کو   اس سفر کے لئے آمادہ کروں۔میں نے واٹس اپ پر تمام   دوستوں کو میسج کیا کہ کون کون اس سفر کو یادگار بنانے میں  میرا  ساتھ دے گا۔ لیکن سائیکل سفر دور کی بات ،موٹر سائیکل پر جانے کے لئے بھی کوئی تیار نہ ہوا۔آخر کار  تھک ہار کرمیں اپنے بستر پر قیلولہ کرنے کے لئے لیٹ گیا۔نماز مغرب سے فارغ ہونے کےبعد میں  نے موبائل پر میسج دیکھے تو  خوشی کی انتہا نہ رہی کہ تین مزیددوستوں نے سائیکل سفر کرنے کی  حامی بھر لی  ۔ ہم کُل پانچ دوست سائِیکل سفر کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔جن کے  درمیان یہ طے پایا کہ 28فروری بروز جمعتہ المبارک صبح 7:30 بجے چھنیاں گاوں کی تنگ گلیوں سے رُخت سفر باندھیں گے۔ اور کھانے پینے کے لئے  ہم میں سے ہر ایک دوست کے پاس ایک چٹختا ہوا پانچ سو کا نوٹ جیب میں لازمی ہو۔جیسے تیسے رات گزری صبح سویرے خاکسارنے سائِیکل سفر  کی تیاری مکمل کرلی تھی۔لیکن جب جانے کا وقت ہوا تو جس دوست نے سفر پر جانے کی  حامی سب سے پہلے بھری تھی  اسی نے  صبح سویرے نیند کے غلبہ میں کہا   کہ آج موسم ٹھیک نہیں ہے اور والد صاحب بھی کہہ رہے ہیں نہ جانا ہی بہتر ہوگا اسی طرح دوسرے دوست نے بھی ٹال مٹول سے کام لیا  اور کہا کہ آج ایک صاحب کو تقریر لکھ کردینے کا وعدہ کر رکھا ہے  اس لئے مجھے اس کارخیر سے دستبردار ہی سمجھیں تو بہتر ہے۔لیکن خاکسار جس نے پچھلا پورا دن انہیں قائل کرنے لیے  منت سماجت میں گزار دیا تھا اتنی جلدی کیسے ہتھیارڈال دیتا ۔ دوسرے دو دوستوں کے ہمراہ پھٹ پھٹ کرتی یونیک بائک پر ان کے دروازے پر جا پہنچا  انہیں آواز دی اچھا ہوا وہ صاحب خود ہی اپنا بھاری سا جسم نازک سی ٹانگوں پر اٹھائے ہوئے نموار ہوئےاور ہمیشہ کی طرح بغیر کسی تیاری کےدرویشانہ طرز پر موٹر سائیکل کے سب سے اخیر لوہے کے ڈنڈے پر تشریف فرما ہوئے۔یہ صاحب میڈیکل کالج میں بھی ایسے ہی تھے ۔انکےاس درویشانہ طرز کو دیکھتے ہوئے ہمارے شفیق و محبوب ہردلعزیزاستاد نے  جیکٹ کا تحفہ ان کی خدمت امیں پیش کیا جو انہوں نے بغیر کسی چون و  چراں کے قبول کیا۔خیر ہم چھنیاں گاؤں  کی تنگ گلیوں میں صحیح  سلامت پہنچ ہی گئے۔کچھ ہی دیر میں ہمارا پانچواں ساتھی جوالف ڈرامہ میں حمزہ علی عباسی کی طرح قلب مومن تھا چھنیاں گاوں کی گلیوں کی طرف مڑتا ہوا دکھائی دیا۔اس طرح قلب مومن کو دیکھتے ہوئے سائیکل سفر کے آثار نظر آنے لگے ۔دعا اور صدقہ سے سائیکل سفر کا آغاز کیا۔  تنگ گلیوں کو عبور کرنے کے بعد  ہماراگروپ ساہیوال کی ناکارہ سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا ہوا پایا گیا( جس کو اس درویش ساتھی نے بہت ہی عمدہ سڑک قراردیا ہے )اور ہر آنے جانے والے کی نظروں کا مرکز بنا رہا ۔ایک ترتیب  ایک لائن میں یہ شاہسوارساتھی سائیکل کے ہینڈل پر سر ڈالے ہوئےسفر کئے جارہے تھے۔سائیکل جس کی اچھی وہ بھی خوش اور خاکسار جس  کی سائیکل نے دارالفتوح  کی سرحد بھی پار کرنے نہیں دی    خوش تھا۔چنانچہ میں  نےویکنڈ گزارنے کے لئے یہ  پروگرام بنایا تھا میری  سائیکل نے دارالفتوح کے قریب ہی جاکر  بریک لگوادی ۔خیر سائیکل مرمت کروانے کے بعد ہم نے آگے کا سفر شروع کیا۔صبح کا ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے ہم میں سے ایک ساتھی کا بی پی لو ہونا شروع ہوگیاتھا  اور مشکل سے کسی کھیت سے ،جہاں ایک عمر رسیدہ خاتون گنوں کی کانٹ چھانٹ کر رہی تھیں ان سے ایک گنا لے کر اس دوست کو اپنا بی پی کو برقرار رکھنے کے لئے کھانے کو کہاجو کہ اس نے اور حافظ صاحب نے بہت مزے سے کھایا۔اللہ اللہ کر کے ہم ترکھان والا چوک پر پہنچے اور وہاں ایک ہوٹل سے ہم نے سادہ سا ناشتہ (دال،مرغ چکن،چنے)کیاجس نے ہمارے جسم میں ختم ہوئی توانائی کو دوبارہ بحال کردیا تھا۔آگے کی منزل کا ہمیں علم نہیں تھا کہ کس طرف کو رخت سفر باندھنا ہے ۔اس مشکل گڑھی میں ہم نے گوگل دوست سے مدد لی جس نے ہمارے سامنے 35 کلومیٹر دور منزل کاایک لمبا چوڑا  نقشہ کھول کر رکھ دیا۔  یہ کیا ہے ؟35 کلومیٹر ہمیں اور چلنا پڑے گا ؟کیا مجھے صرف 22 کلومیٹر کا سفر کا نہیں بتایا گیا تھا؟ایک ساتھی جس کا کچھ دیر قبل بی پی لو تھا اب وہ ہائی بلڈپریشر کے ساتھ مجھ پر مزید سفر گوگل کی زبانی سن کر برس پڑا۔گروپ والوں نے معاملہ رفع دفع کروایا ۔دعا کے ساتھ اور گوگل کے بتائے ہوئے نقشہ کے ذریعہ مخالف ہوا میں ہم نے دوبارہ اپنا سفر شروع کیا۔ مخالف ہوا کے سبب سے ہمارے سفر کی رفتار 3کلومیٹر فی گھنٹہ ہوچکی تھی۔گوگل دوست نے ہمیں  گلیوں اور کھیتوں کےنظارے بھی کروائے ۔ترکھان والا چوک سے کم و بیش 5 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد حافظ صاحب کی سائیکل اور میری سائیکل جس نے سفر شروع کرنے پر ہی بریک لگوادی تھی اپنا کام دکھانا شروع کردیا ۔  سائیکل پر سب سے زیادہ خرچہ یہی تھا کہ کبھی کبھا ر اس کے کتے فیل ہو جاتے تھے ۔جو کسی خراب موٹر سائیکل کے انجن سے کم نہ تھے۔بعض عقلمند نوجوان ان فیل شدہ کتوں کو پاس کرنے  کے لیے تھوڑا سائیڈ پر لے جا کر ہتھوڑا کا سہارا لیتے ہیں۔بہرحال سائیکل جتنی بھی پرانی ہوجائے کسی نہ کسی صورت کام دیتی رہتی ہے ۔اور نہیں تو کم سے کم مضمون نگاروں کے کام ضرور آتی ہے ۔اگر سائیکل اتنی ہی ناکارہ ہوتی تو پطرس ""مرحوم کی یاد میں ""سائیکل کا ذکر نہ کرتے۔  شکستہ ساز میں بھی محشر جذبات رکھتی تھی  توانائی نہیں رکھتی مگر جذبات رکھتی تھی   ہم  نے بھی سائیکل کومرمت کرنے کے لئے  ایک سائیڈ پر لے جا کر ہتھوڑا کی بجائے اینٹ کا سہارا لیا اور پھر کہیں جاکر ہماری سائیکلوں نے ایک سائیکل کی دوکان پر پہنچایا ۔جہاں دس دس کے سبز نوٹ دونوں سائیکل کی مرمت کروانے میں کامیاب ہوگئے۔اللہ کا شکر ادا کیا اور ساتھ لگے ہوئے نلکے سے پانی نوش فرمایا اوردرویش ساتھی نے نیکی کا کام یہ کیا کہ چند روپے کا خرچہ کر کے ٹافیاں اوربَین ڈنک کی یاد میں ڈنگ ڈونگ ببلز خریدیں۔کچھ دیر مسلسل سفر کرتے ہوئے ہمیں ایک گاؤں میں گنے کے رو کی ریڑھی نظر آئی ۔ریڑھی کے مالک سے منت سماجت کرکے ان کے گھر سے برف کا کولہ منگوایا اور غرض یہ تھی کہ ٹھنڈا رو نوش کیا جائے۔بالاخر ہم سب کی خدمت میں مہمانوں کی طرز پر رو کے بڑے بڑے گلاس پیش کئے گئے اور ہم رو نوش کرنے کے بعد حیران ہوئے کہ اس پر خرچ صرف 150 روپے آیا۔کچھ دیر سانس لیا اور ایک دوسرے پر طنزو مزاح کرنے کے بعد پھر وہی ہر ایک نے اپنی اپنی ناکارہ سائیکل کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے 136چک سے 126چک جانے کے لئے سفر شروع کیا۔اب ہم اپنی منزل سے 12 کلومیٹر دور تھے اور  دوپہر 2بج چکے تھے۔راستے میں ایک دوست نے کہا یہیں سے واپسی کا رخ کرتے ہیں لیکن باقی  دوست اس مشورہ کو کہاں ماننے والے تھے ان میں سے ایک قلب مومن تھا اور دوسرا وہ جو سیلفی سٹک تصویر بنانے کی غرض سےگھر سے لایا تھا۔سہ پہر 3بجے ہم اپنی منزل پر پہنچے۔  میں اکیلا چلا تھا جانب منزل مگر  لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا  خوبصورت پہاڑوں میں ڈھکی چھپی جھیل ،ہر طرف رنگ بکھیرتی ہوئی ایک نئی نویلی  دلہن کی طرح نظر آرہی تھی ۔اس خوبصورت نظارے نے سب کی تھکان (جو مسلسل 6 گھنٹے کا طویل سفر کرکے یہاں پہنچے تھے )اتار دی سوائے ایک درویشانہ انسان کے جس نے یہ کہا کہ جھیل کہاں ہے؟؟خیر جھیل کو پندرہ منٹ میں ہی میرے  ساتھیوں نے الوداع کرنے کی ٹھان لی ۔کیونکہ پائپوں کے ذریعہ سے ایک مصنوعی جھیل تیار کی گئی تھی۔ بھوک سے ہم نڈھال ہو رہے تھے اور مزید سائیکل چلانا ہمارے لئے  مشکل ہوچکا تھا۔اورآس پاس دور دور تک کوئی دوکان نظر نہیں آرہی تھی۔بھوک نے ہمیں ایک سبزی کی ریڑھی کے مالک سے گاجر مولی معلوم کرنے پر مجبور کیا۔لیکن جب جواب منفی میں ملا تو بچی کچی ساری امیدیں ختم ہوگئیں ۔اس موقع پر دعا کرنے کا بہت موقع ملا اور  دور ایک دکان میں پکوڑے اور سموسے تلتا ہوا نوجوان نظر آیا تو خوشی کی ا نتہا نہ رہی اور ہمارے ذریعہ سے اس کے 6 سموسے ہاتھوں ہاتھ بک گئے ۔اب مسئلہ یہ پیش آیا کہ 5 ساتھی اور 6 سموسوں کو کیسے تقسیم کیا جائے ۔جھنھلاہٹ سے نکلنے کے لئے حافظ صاحب اور خاکسار جس نے  پیچھے رہنے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک سموسہ جلدی سے ہڑپ کرگئے اور باقی سموسے سب میں تقسیم کردئے۔
سائیکل سفر کے دوران استعمال ہونے والی سائیکل 

سائیکل سفر

ایک روز قبل : 

خاکسار اتوار کی چھٹی اکثر شہر سے باہر  گزارہ کرتاتھا  اوراس بار    دفتر سے واپس گھر آتے ہی مییسجز پر کسی سے بات کرنے میں مصروف ہوگیا۔ کیونکہ حافظ نامی دوست  کو قائل کرنے کی کوشش کررہاتھا  کہ سرگودھا کے پہاڑوں میں پوشیدہ ایک جھیل جو کہ کیرانہ جھیل کے نام سے موسوم ہے اس کی سیر کرنے کے لئے سائیکل سفرکیا جائے۔ سائیکل کے ساتھ میرا  رشتہ بہت پرانا تھا لیکن سائیکل کے ساتھ میری کوئی خوشگوار یاد وابستہ نہیں تھی ۔ بالاخرمیں اپنےدوست کو اس پُرمشقت سائیکل سفر کرنے کے لئے اس شرط پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ  ناشتہ میری طرف سے ہوگا ۔اب  مشکل یہ تھی  کس طرح مزید تین دوستوں کو   اس سفر کے لئے آمادہ کروں۔میں نے واٹس اپ پر تمام   دوستوں کو میسج کیا کہ کون کون اس سفر کو یادگار بنانے میں  میرا  ساتھ دے گا۔ لیکن سائیکل سفر دور کی بات ،موٹر سائیکل پر جانے کے لئے بھی کوئی تیار نہ ہوا۔آخر کار  تھک ہار کرمیں اپنے بستر پر قیلولہ کرنے کے لئے لیٹ گیا۔نماز مغرب سے فارغ ہونے کےبعد میں  نے موبائل پر میسج دیکھے تو  خوشی کی انتہا نہ رہی کہ تین مزیددوستوں نے سائیکل سفر کرنے کی  حامی بھر لی  ۔ ہم کُل پانچ دوست سائِیکل سفر کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔جن کے  درمیان یہ طے پایا کہ 28فروری بروز جمعتہ المبارک صبح 7:30 بجے چھنیاں گاوں کی تنگ گلیوں سے رُخت سفر باندھیں گے۔ اور کھانے پینے کے لئے  ہم میں سے ہر ایک دوست کے پاس ایک چٹختا ہوا پانچ سو کا نوٹ جیب میں لازمی ہو۔

سائیکل سفر کے روز


جیسے تیسے رات گزری صبح سویرے خاکسارنے سائِیکل سفر  کی تیاری مکمل کرلی تھی۔لیکن جب جانے کا وقت ہوا تو جس دوست نے سفر پر جانے کی  حامی سب سے پہلے بھری تھی  اسی نے  صبح سویرے نیند کے غلبہ میں کہاکہ آج موسم ٹھیک نہیں ہے اور والد صاحب بھی کہہ رہے ہیں نہ جانا ہی بہتر ہوگا اسی طرح دوسرے دوست نے بھی ٹال مٹول سے کام لیا  اور کہا کہ آج ایک صاحب کو تقریر لکھ کردینے کا وعدہ کر رکھا ہے  اس لئے مجھے اس کارخیر سے دستبردار ہی سمجھیں تو بہتر ہے۔لیکن خاکسار جس نے پچھلا پورا دن انہیں قائل کرنے لیے  منت سماجت میں گزار دیا تھا اتنی جلدی کیسے ہتھیارڈال دیتا ۔ دوسرے دو دوستوں کے ہمراہ پھٹ پھٹ کرتی یونیک بائک پر ان کے دروازے پر جا پہنچا  انہیں آواز دی اچھا ہوا وہ صاحب خود ہی اپنا بھاری سا جسم نازک سی ٹانگوں پر اٹھائے ہوئے نموار ہوئےاور ہمیشہ کی طرح بغیر کسی تیاری کےدرویشانہ طرز پر موٹر سائیکل کے سب سے اخیر لوہے کے ڈنڈے پر تشریف فرما ہوئے۔یہ صاحب میڈیکل کالج میں بھی ایسے ہی تھے ۔انکےاس درویشانہ طرز کو دیکھتے ہوئے ہمارے شفیق و محبوب ہردلعزیزاستاد نے  جیکٹ کا تحفہ ان کی خدمت امیں پیش کیا جو انہوں نے بغیر کسی چون و  چراں کے قبول کیا۔خیر ہم چھنیاں گاؤں  کی تنگ گلیوں میں صحیح  سلامت پہنچ ہی گئے۔کچھ ہی دیر میں ہمارا پانچواں ساتھی جوالف ڈرامہ میں حمزہ علی عباسی کی طرح قلب مومن تھا چھنیاں گاؤں کی گلیوں کی طرف مڑتا ہوا دکھائی دیا۔اس طرح قلب مومن کو دیکھتے ہوئے سائیکل سفر کے آثار نظر آنے لگے ۔دعا اور صدقہ سے سائیکل سفر کا آغاز کیا۔
تنگ گلیوں کو عبور کرنے کے بعد  ہماراگروپ ساہیوال کی ناکارہ سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا ہوا پایا گیا( جس کو اس درویش ساتھی نے بہت ہی عمدہ سڑک قراردیا ہے )اور ہر آنے جانے والے کی نظروں کا مرکز بنا رہا ۔ایک ترتیب  ایک لائن میں یہ شاہسوارساتھی سائیکل کے ہینڈل پر سر ڈالے ہوئےسفر کئے جارہے تھے۔سائیکل جس کی اچھی وہ بھی خوش اور خاکسار جس  کی سائیکل نے دارالفتوح  کی سرحد بھی پار کرنے نہیں دی    خوش تھا۔چنانچہ میں  نےویکنڈ گزارنے کے لئے یہ  پروگرام بنایا تھا میری  سائیکل نے دارالفتوح کے قریب ہی جاکر  بریک لگوادی ۔خیر سائیکل مرمت کروانے کے بعد ہم نے آگے کا سفر شروع کیا۔صبح کا ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے ہم میں سے ایک ساتھی کا بی پی لو ہونا شروع ہوگیاتھا  اور مشکل سے کسی کھیت سے ،جہاں ایک عمر رسیدہ خاتون گنوں کی کانٹ چھانٹ کر رہی تھیں ان سے ایک گنا لے کر اس دوست کو اپنا بی پی کو برقرار رکھنے کے لئے کھانے کو کہاجو کہ اس نے اور حافظ صاحب نے بہت مزے سے کھایا۔اللہ اللہ کر کے ہم ترکھان والا چوک پر پہنچے اور وہاں ایک ہوٹل سے ہم نے سادہ سا ناشتہ (دال،مرغ چکن،چنے)کیاجس نے ہمارے جسم میں ختم ہوئی توانائی کو دوبارہ بحال کردیا تھا۔آگے کی منزل کا ہمیں علم نہیں تھا کہ کس طرف کو رخت سفر باندھنا ہے ۔اس مشکل گڑھی میں ہم نے گوگل دوست سے مدد لی جس نے ہمارے سامنے 35 کلومیٹر دور منزل کاایک لمبا چوڑا  نقشہ کھول کر رکھ دیا۔
یہ کیا ہے ؟35 کلومیٹر ہمیں اور چلنا پڑے گا ؟کیا مجھے صرف 22 کلومیٹر کا سفر کا نہیں بتایا گیا تھا؟ایک ساتھی جس کا کچھ دیر قبل بی پی لو تھا اب وہ ہائی بلڈپریشر کے ساتھ مجھ پر مزید سفر گوگل کی زبانی سن کر برس پڑا۔گروپ والوں نے معاملہ رفع دفع کروایا ۔دعا کے ساتھ اور گوگل کے بتائے ہوئے نقشہ کے ذریعہ مخالف ہوا میں ہم نے دوبارہ اپنا سفر شروع کیا۔ مخالف ہوا کے سبب سے ہمارے سفر کی رفتار 3کلومیٹر فی گھنٹہ ہوچکی تھی۔گوگل دوست نے ہمیں  گلیوں اور کھیتوں کےنظارے بھی کروائے ۔ترکھان والا چوک سے کم و بیش 5 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد حافظ صاحب کی سائیکل اور میری سائیکل جس نے سفر شروع کرنے پر ہی بریک لگوادی تھی اپنا کام دکھانا شروع کردیا ۔
سائیکل پر سب سے زیادہ خرچہ یہی تھا کہ کبھی کبھا ر اس کے کتے فیل ہو جاتے تھے ۔جو کسی خراب موٹر سائیکل کے انجن سے کم نہ تھے۔بعض عقلمند نوجوان ان فیل شدہ کتوں کو پاس کرنے  کے لیے تھوڑا سائیڈ پر لے جا کر ہتھوڑا کا سہارا لیتے ہیں۔بہرحال سائیکل جتنی بھی پرانی ہوجائے کسی نہ کسی صورت کام دیتی رہتی ہے ۔اور نہیں تو کم سے کم مضمون نگاروں کے کام ضرور آتی ہے ۔اگر سائیکل اتنی ہی ناکارہ ہوتی تو پطرس ""مرحوم کی یاد میں ""سائیکل کا ذکر نہ کرتے۔
شکستہ ساز میں بھی محشر جذبات رکھتی تھی
توانائی نہیں رکھتی مگر جذبات رکھتی تھی
 ہم  نے بھی سائیکل کومرمت کرنے کے لئے  ایک سائیڈ پر لے جا کر ہتھوڑا کی بجائے اینٹ کا سہارا لیا اور پھر کہیں جاکر ہماری سائیکلوں نے ایک سائیکل کی دوکان پر پہنچایا ۔جہاں دس دس کے سبز نوٹ دونوں سائیکل کی مرمت کروانے میں کامیاب ہوگئے۔اللہ کا شکر ادا کیا اور ساتھ لگے ہوئے نلکے سے پانی نوش فرمایا اوردرویش ساتھی نے نیکی کا کام یہ کیا کہ چند روپے کا خرچہ کر کے ٹافیاں اوربَین ڈنک کی یاد میں ڈنگ ڈونگ ببلز خریدیں۔کچھ دیر مسلسل سفر کرتے ہوئے ہمیں ایک گاؤں میں گنے کے رو کی ریڑھی نظر آئی ۔ریڑھی کے مالک سے منت سماجت کرکے ان کے گھر سے برف کا کولہ منگوایا اور غرض یہ تھی کہ ٹھنڈا رو نوش کیا جائے۔بالاخر ہم سب کی خدمت میں مہمانوں کی طرز پر رو کے بڑے بڑے گلاس پیش کئے گئے اور ہم رو نوش کرنے کے بعد حیران ہوئے کہ اس پر خرچ صرف 150 روپے آیا۔کچھ دیر سانس لیا اور ایک دوسرے پر طنزو مزاح کرنے کے بعد پھر وہی ہر ایک نے اپنی اپنی ناکارہ سائیکل کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے 136چک سے 126چک جانے کے لئے سفر شروع کیا۔اب ہم اپنی منزل سے 12 کلومیٹر دور تھے اور  دوپہر 2بج چکے تھے۔راستے میں ایک دوست نے کہا یہیں سے واپسی کا رخ کرتے ہیں لیکن باقی  دوست اس مشورہ کو کہاں ماننے والے تھے ان میں سے ایک قلب مومن تھا اور دوسرا وہ جو سیلفی سٹک تصویر بنانے کی غرض سےگھر سے لایا تھا۔سہ پہر 3بجے ہم اپنی منزل پر پہنچے۔
میں اکیلا چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
خوبصورت پہاڑوں میں ڈھکی چھپی جھیل ،ہر طرف رنگ بکھیرتی ہوئی ایک نئی نویلی  دلہن کی طرح نظر آرہی تھی ۔اس خوبصورت نظارے نے سب کی تھکان (جو مسلسل 6 گھنٹے کا طویل سفر کرکے یہاں پہنچے تھے )اتار دی سوائے ایک درویشانہ انسان کے جس نے یہ کہا کہ جھیل کہاں ہے؟؟خیر جھیل کو پندرہ منٹ میں ہی میرے  ساتھیوں نے الوداع کرنے کی ٹھان لی ۔کیونکہ پائپوں کے ذریعہ سے ایک مصنوعی جھیل تیار کی گئی تھی۔ بھوک سے ہم نڈھال ہو رہے تھے اور مزید سائیکل چلانا ہمارے لئے  مشکل ہوچکا تھا۔اورآس پاس دور دور تک کوئی دوکان نظر نہیں آرہی تھی۔بھوک نے ہمیں ایک سبزی کی ریڑھی کے مالک سے گاجر مولی معلوم کرنے پر مجبور کیا۔لیکن جب جواب منفی میں ملا تو بچی کچی ساری امیدیں ختم ہوگئیں ۔اس موقع پر دعا کرنے کا بہت موقع ملا اور  دور ایک دکان میں پکوڑے اور سموسے تلتا ہوا نوجوان نظر آیا تو خوشی کی ا نتہا نہ رہی اور ہمارے ذریعہ سے اس کے 6 سموسے ہاتھوں ہاتھ بک گئے ۔اب مسئلہ یہ پیش آیا کہ 5 ساتھی اور 6 سموسوں کو کیسے تقسیم کیا جائے ۔جھنھلاہٹ سے نکلنے کے لئے حافظ صاحب اور خاکسار جس نے  پیچھے رہنے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک سموسہ جلدی سے ہڑپ کرگئے اور باقی سموسے سب میں تقسیم کردئے۔
واپسی کا رخت سفر تو ہم پہلے ہی کرچکے تھے ۔عجب یہ کہ دو ساتھی جو پیچھے رہ گئے تھے ایک مردہ سائیکل کو سہارا دیتے ہوئے دائیں مڑنے کی بجائے بائیں مڑگئے ۔20 منٹ کی  مسافت طے کرنے پر کال ریسیو ہوئی کہ بائیں کی بجائے دائیں مڑنا تھا۔خیر غصہ کو دبائے واپس دائیاں رستہ اختیار کیا ۔بالاخر ہم سب  ایک جگہ اکھٹے ہو گئے۔گوگل ساتھی ہماری   مسلسل رہنمائی کر رہا تھا ۔جب  گوگل دوست نے یہ بتایا کہ مزید 10 کلومیٹر طے کرنے کے بعد سائیکل سفر کا شوقین گروپ سرگودھا روڈ سے ملحق ہو جائے گا تو بغیر وقت کا ضیاءکئے سائیکلوں کو دوڑاتے ہوئے 40 منٹ میں سرگودھا روڈ کے حدود میں پہنچ گئے۔دو ساتھی جن میں قلب مومن اور حافظ صاحب شامل تھے کوسوں آگے تھے ۔اور فون پر یہ طے پایا کہ پورے 6 بجے وہ دو ساتھی جو کوسوں آگے تھے رُک کر اپنا سانس بحال کریں گے۔تین ساتھی جو پیچھے رہ چکے تھے 30 منٹ کی مسلسل مسافت طے کرتے ہوئے اُن کے پاس لالیاں والے ٹول پلازہ پر آملے کچھ دیر سانس لینے اور پانی پینے کے بعد اس درویش آدمی اور جو اس سفر میں امیر قافلہ تھا اُسے یہ ارشاد ہوا کہ آپ ہمیں لیڈ کریں۔اس ارشاد کی امیر قافلہ نے پورے جوش و خروش سے تعمیل کی ۔ہوا یہ کہ اپنا مردہ سائیکل چھوڑ کر حافظ صاحب کا سائیکل لے اُڑے اور کچھ ہی لمحوں میں میں جو امیر قافلہ تھا سب  کی نظروں سے اوجھل ہوگیااور  ایک پٹرول پمپ پر باقی ساتھیوں کا انتظار کرنے میں بیٹھ گیا۔20 سے 25 منٹ کا طویل انتظار کرنے کے بعد جب کو ئی نظر نہ آیا  تو فون کا سہارا لینا پڑا۔اور فون کال پر آگے سے یہ جواب موصول ہوا کہ خوب امیر قافلہ کا حق ادا کیا ہے کہ حافظ صاحب کی سائیکل لے اُڑے ہیں ۔خدا جانتا ہے کہ امیر قافلہ اپنے زعم میں یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے پاس وہی مردہ سائیکل موجود ہے ۔درویش صفت ساتھی کو آگے کا سفر اکیلا کرنے کی ہدایت امیر قافلہ سے موصول ہوچکی تھی اور خود باقی دوستوں کے انتظار میں اسی پٹرول پمپ کے ایک کونے میں بیٹھ گیا ۔باقی چار ساتھی جن میں امیر قافلہ بھی موجود تھے چھنیاں گاوں کی حدود تک اکھٹے واپس آئے اور ایک دوسرے کو الوداع کرکے اپنے گھروں کی منزل کی طرد رواں دواں ہوئے۔
دنیا کی لمبی راہوں پر ہم یوں تو چلتے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو یاد ہمیشہ آتے ہیں
وہ راہ بدلتے ہیں اپنی اور مڑ کر ہاتھ ہلاتے ہیں
لیکن وہ دلوں کو یادوں کی خوشبو بن کر مہکاتے ہیں
 

Featured Post

مجھ پہ جو بیتی : اردو کی آپ بیتی

  اردو کی آپ بیتی تمہید چار حرفوں سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔ لشکری چھاؤنی میرا جنم بھوم [1] ہے۔ دوسروں کو قدامت پہ ناز ہے اور مجھے جِدَّ...