![]() |
سائیکل سفر کے دوران استعمال ہونے والی سائیکل |
سائیکل سفر
ایک روز قبل :
سائیکل سفر کے روز
جیسے تیسے رات گزری صبح سویرے خاکسارنے سائِیکل سفر کی تیاری مکمل کرلی تھی۔لیکن جب
جانے کا وقت ہوا تو جس دوست نے سفر پر جانے کی حامی سب سے پہلے بھری تھی اسی نے صبح
سویرے نیند کے غلبہ میں کہاکہ آج موسم
ٹھیک نہیں ہے اور والد صاحب بھی کہہ رہے ہیں نہ جانا ہی بہتر ہوگا اسی طرح دوسرے
دوست نے بھی ٹال مٹول سے کام لیا اور کہا
کہ آج ایک صاحب کو تقریر لکھ کردینے کا وعدہ کر رکھا ہے اس لئے مجھے اس کارخیر سے دستبردار ہی سمجھیں تو
بہتر ہے۔لیکن خاکسار جس نے پچھلا پورا دن انہیں قائل کرنے لیے منت سماجت میں گزار دیا تھا اتنی جلدی کیسے ہتھیارڈال
دیتا ۔ دوسرے دو دوستوں کے ہمراہ پھٹ پھٹ کرتی یونیک بائک پر ان کے دروازے پر جا
پہنچا انہیں آواز دی اچھا ہوا وہ صاحب خود
ہی اپنا بھاری سا جسم نازک سی ٹانگوں پر اٹھائے ہوئے نموار ہوئےاور ہمیشہ کی طرح
بغیر کسی تیاری کےدرویشانہ طرز پر موٹر سائیکل کے سب سے اخیر لوہے کے ڈنڈے پر
تشریف فرما ہوئے۔یہ صاحب میڈیکل کالج میں بھی ایسے ہی تھے ۔انکےاس درویشانہ طرز کو
دیکھتے ہوئے ہمارے شفیق و محبوب ہردلعزیزاستاد نے
جیکٹ کا تحفہ ان کی خدمت امیں پیش کیا جو انہوں نے بغیر کسی چون و چراں کے قبول
کیا۔خیر ہم چھنیاں گاؤں کی تنگ گلیوں میں
صحیح سلامت پہنچ ہی گئے۔کچھ ہی دیر میں ہمارا پانچواں ساتھی جوالف ڈرامہ میں
حمزہ علی عباسی کی طرح قلب مومن تھا چھنیاں گاؤں کی گلیوں کی طرف مڑتا ہوا دکھائی
دیا۔اس طرح قلب مومن کو دیکھتے ہوئے سائیکل سفر کے آثار نظر آنے لگے ۔دعا اور صدقہ
سے سائیکل سفر کا آغاز کیا۔
تنگ گلیوں کو عبور کرنے کے بعد ہماراگروپ ساہیوال کی ناکارہ سڑکوں پر سائیکل
دوڑاتا ہوا پایا گیا( جس کو اس درویش ساتھی نے بہت ہی عمدہ سڑک قراردیا ہے )اور ہر
آنے جانے والے کی نظروں کا مرکز بنا رہا ۔ایک ترتیب ایک لائن میں یہ شاہسوارساتھی سائیکل کے ہینڈل
پر سر ڈالے ہوئےسفر کئے جارہے تھے۔سائیکل جس کی اچھی وہ بھی خوش اور خاکسار جس کی سائیکل نے دارالفتوح کی سرحد بھی پار کرنے نہیں دی خوش تھا۔چنانچہ
میں نےویکنڈ گزارنے کے لئے یہ پروگرام بنایا تھا میری سائیکل نے دارالفتوح کے قریب ہی جاکر بریک لگوادی ۔خیر سائیکل مرمت کروانے کے بعد ہم
نے آگے کا سفر شروع کیا۔صبح کا ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے ہم میں سے ایک ساتھی کا بی
پی لو ہونا شروع ہوگیاتھا اور مشکل سے کسی
کھیت سے ،جہاں ایک عمر رسیدہ خاتون گنوں کی کانٹ چھانٹ کر رہی تھیں ان سے ایک گنا
لے کر اس دوست کو اپنا بی پی کو برقرار رکھنے کے لئے کھانے کو کہاجو کہ اس نے اور
حافظ صاحب نے بہت مزے سے کھایا۔اللہ اللہ کر کے ہم ترکھان والا چوک پر پہنچے اور
وہاں ایک ہوٹل سے ہم نے سادہ سا ناشتہ (دال،مرغ چکن،چنے)کیاجس نے ہمارے جسم میں
ختم ہوئی توانائی کو دوبارہ بحال کردیا تھا۔آگے کی منزل کا ہمیں علم نہیں تھا کہ
کس طرف کو رخت سفر باندھنا ہے ۔اس مشکل گڑھی میں ہم نے گوگل دوست سے مدد لی جس نے
ہمارے سامنے 35 کلومیٹر دور منزل کاایک لمبا چوڑا نقشہ کھول کر رکھ دیا۔
یہ کیا ہے ؟35 کلومیٹر ہمیں اور چلنا پڑے گا ؟کیا مجھے صرف 22
کلومیٹر کا سفر کا نہیں بتایا گیا تھا؟ایک ساتھی جس کا کچھ دیر قبل بی پی لو تھا
اب وہ ہائی بلڈپریشر کے ساتھ مجھ پر مزید سفر گوگل کی زبانی سن کر برس پڑا۔گروپ
والوں نے معاملہ رفع دفع کروایا ۔دعا کے ساتھ اور گوگل کے بتائے ہوئے نقشہ کے
ذریعہ مخالف ہوا میں ہم نے دوبارہ اپنا سفر شروع کیا۔ مخالف ہوا کے سبب سے ہمارے
سفر کی رفتار 3کلومیٹر فی گھنٹہ ہوچکی تھی۔گوگل دوست نے ہمیں گلیوں اور کھیتوں کےنظارے بھی کروائے ۔ترکھان
والا چوک سے کم و بیش 5 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد حافظ صاحب کی سائیکل اور میری
سائیکل جس نے سفر شروع کرنے پر ہی بریک لگوادی تھی اپنا کام دکھانا شروع کردیا ۔
سائیکل پر سب سے زیادہ خرچہ یہی تھا کہ کبھی کبھا ر اس کے
کتے فیل ہو جاتے تھے ۔جو کسی خراب موٹر سائیکل کے انجن سے کم نہ تھے۔بعض عقلمند
نوجوان ان فیل شدہ کتوں کو پاس کرنے کے
لیے تھوڑا سائیڈ پر لے جا کر ہتھوڑا کا سہارا لیتے ہیں۔بہرحال سائیکل جتنی بھی
پرانی ہوجائے کسی نہ کسی صورت کام دیتی رہتی ہے ۔اور نہیں تو کم سے کم مضمون
نگاروں کے کام ضرور آتی ہے ۔اگر سائیکل اتنی ہی ناکارہ ہوتی تو پطرس
""مرحوم کی یاد میں ""سائیکل کا ذکر نہ کرتے۔
شکستہ
ساز میں بھی محشر جذبات رکھتی تھی
توانائی
نہیں رکھتی مگر جذبات رکھتی تھی
ہم نے بھی سائیکل کومرمت کرنے کے لئے ایک سائیڈ پر لے جا کر ہتھوڑا کی بجائے اینٹ کا
سہارا لیا اور پھر کہیں جاکر ہماری سائیکلوں نے ایک سائیکل کی دوکان پر پہنچایا
۔جہاں دس دس کے سبز نوٹ دونوں سائیکل کی مرمت کروانے میں کامیاب ہوگئے۔اللہ کا شکر
ادا کیا اور ساتھ لگے ہوئے نلکے سے پانی نوش فرمایا اوردرویش ساتھی نے نیکی کا کام
یہ کیا کہ چند روپے کا خرچہ کر کے ٹافیاں اوربَین ڈنک کی یاد میں ڈنگ ڈونگ ببلز خریدیں۔کچھ دیر مسلسل سفر
کرتے ہوئے ہمیں ایک گاؤں میں گنے کے رو کی ریڑھی نظر آئی ۔ریڑھی کے مالک سے منت
سماجت کرکے ان کے گھر سے برف کا کولہ منگوایا اور غرض یہ تھی کہ ٹھنڈا رو نوش کیا
جائے۔بالاخر ہم سب کی خدمت میں مہمانوں کی طرز پر رو کے بڑے بڑے گلاس پیش کئے گئے
اور ہم رو نوش کرنے کے بعد حیران ہوئے کہ اس پر خرچ صرف 150 روپے آیا۔کچھ دیر سانس
لیا اور ایک دوسرے پر طنزو مزاح کرنے کے بعد پھر وہی ہر ایک نے اپنی اپنی ناکارہ
سائیکل کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے 136چک سے 126چک جانے کے لئے سفر شروع کیا۔اب ہم
اپنی منزل سے 12 کلومیٹر دور تھے اور دوپہر
2بج چکے تھے۔راستے میں ایک دوست نے کہا یہیں سے واپسی کا رخ کرتے ہیں لیکن باقی دوست اس مشورہ کو کہاں ماننے والے تھے ان میں سے
ایک قلب مومن تھا اور دوسرا وہ جو سیلفی سٹک تصویر بنانے کی غرض سےگھر سے لایا تھا۔سہ
پہر 3بجے ہم اپنی منزل پر پہنچے۔
میں اکیلا چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
خوبصورت پہاڑوں میں ڈھکی چھپی جھیل ،ہر طرف رنگ
بکھیرتی ہوئی ایک نئی نویلی دلہن کی طرح
نظر آرہی تھی ۔اس خوبصورت نظارے نے سب کی تھکان (جو مسلسل 6 گھنٹے کا طویل سفر
کرکے یہاں پہنچے تھے )اتار دی سوائے ایک درویشانہ انسان کے جس نے یہ کہا کہ جھیل
کہاں ہے؟؟خیر جھیل کو پندرہ منٹ میں ہی میرے ساتھیوں نے الوداع کرنے کی ٹھان لی ۔کیونکہ پائپوں
کے ذریعہ سے ایک مصنوعی جھیل تیار کی گئی تھی۔ بھوک سے ہم نڈھال ہو رہے تھے اور
مزید سائیکل چلانا ہمارے لئے مشکل ہوچکا
تھا۔اورآس پاس دور دور تک کوئی دوکان نظر نہیں آرہی تھی۔بھوک نے ہمیں ایک سبزی کی
ریڑھی کے مالک سے گاجر مولی معلوم کرنے پر مجبور کیا۔لیکن جب جواب منفی میں ملا تو
بچی کچی ساری امیدیں ختم ہوگئیں ۔اس موقع پر دعا کرنے کا بہت موقع ملا اور دور ایک دکان میں پکوڑے اور سموسے تلتا ہوا
نوجوان نظر آیا تو خوشی کی ا نتہا نہ رہی اور ہمارے ذریعہ سے اس کے 6 سموسے ہاتھوں
ہاتھ بک گئے ۔اب مسئلہ یہ پیش آیا کہ 5 ساتھی اور 6 سموسوں کو کیسے تقسیم کیا جائے
۔جھنھلاہٹ سے نکلنے کے لئے حافظ صاحب اور خاکسار جس نے پیچھے رہنے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک سموسہ
جلدی سے ہڑپ کرگئے اور باقی سموسے سب میں تقسیم کردئے۔
واپسی کا رخت سفر تو ہم پہلے ہی کرچکے تھے ۔عجب
یہ کہ دو ساتھی جو پیچھے رہ گئے تھے ایک مردہ سائیکل کو سہارا دیتے ہوئے دائیں
مڑنے کی بجائے بائیں مڑگئے ۔20 منٹ کی
مسافت طے کرنے پر کال ریسیو ہوئی کہ بائیں کی بجائے دائیں مڑنا تھا۔خیر غصہ
کو دبائے واپس دائیاں رستہ اختیار کیا ۔بالاخر ہم سب ایک جگہ اکھٹے ہو گئے۔گوگل ساتھی ہماری مسلسل رہنمائی کر رہا تھا ۔جب گوگل دوست نے یہ بتایا کہ مزید 10 کلومیٹر طے
کرنے کے بعد سائیکل سفر کا شوقین گروپ سرگودھا روڈ سے ملحق ہو جائے گا تو بغیر وقت
کا ضیاءکئے سائیکلوں کو دوڑاتے ہوئے 40 منٹ میں سرگودھا روڈ کے حدود میں پہنچ گئے۔دو
ساتھی جن میں قلب مومن اور حافظ صاحب شامل تھے کوسوں آگے تھے ۔اور فون پر یہ طے
پایا کہ پورے 6 بجے وہ دو ساتھی جو کوسوں آگے تھے رُک کر اپنا سانس بحال کریں
گے۔تین ساتھی جو پیچھے رہ چکے تھے 30 منٹ کی مسلسل مسافت طے کرتے ہوئے اُن کے پاس
لالیاں والے ٹول پلازہ پر آملے کچھ دیر سانس لینے اور پانی پینے کے بعد اس درویش
آدمی اور جو اس سفر میں امیر قافلہ تھا اُسے یہ ارشاد ہوا کہ آپ ہمیں لیڈ کریں۔اس
ارشاد کی امیر قافلہ نے پورے جوش و خروش سے تعمیل کی ۔ہوا یہ کہ اپنا مردہ سائیکل
چھوڑ کر حافظ صاحب کا سائیکل لے اُڑے اور کچھ ہی لمحوں میں میں جو امیر قافلہ تھا
سب کی نظروں سے اوجھل ہوگیااور ایک پٹرول پمپ پر باقی ساتھیوں کا انتظار کرنے میں بیٹھ گیا۔20 سے 25 منٹ کا
طویل انتظار کرنے کے بعد جب کو ئی نظر نہ آیا
تو فون کا سہارا لینا پڑا۔اور فون کال پر آگے سے یہ جواب موصول ہوا کہ خوب
امیر قافلہ کا حق ادا کیا ہے کہ حافظ صاحب کی سائیکل لے اُڑے ہیں ۔خدا جانتا ہے کہ
امیر قافلہ اپنے زعم میں یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے پاس وہی مردہ سائیکل موجود ہے
۔درویش صفت ساتھی کو آگے کا سفر اکیلا کرنے کی ہدایت امیر قافلہ سے موصول ہوچکی
تھی اور خود باقی دوستوں کے انتظار میں اسی پٹرول پمپ کے ایک کونے میں بیٹھ گیا
۔باقی چار ساتھی جن میں امیر قافلہ بھی موجود تھے چھنیاں گاوں کی حدود تک اکھٹے
واپس آئے اور ایک دوسرے کو الوداع کرکے اپنے گھروں کی منزل کی طرد رواں دواں ہوئے۔
دنیا کی لمبی راہوں پر ہم یوں تو چلتے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو یاد ہمیشہ آتے ہیں
وہ راہ بدلتے ہیں اپنی اور مڑ کر ہاتھ ہلاتے ہیں
لیکن وہ دلوں کو یادوں کی خوشبو بن کر مہکاتے ہیں