’’جو کھڑکی سے جھانکا تو میری دنیا بدل گئی‘‘
 |
والدین میری پڑھائی کی خاطر قربانیاں دیتے دیتے چل بسے |
زندگی بننے سنورنے کے لئے کسی وعظ و پندکی محتاج نہیں بلکہ ایک لمحہ ہی اتنا موثر اور زبردست ہوتا ہے کہ بگڑی دنیا کو زیر کر کے پل صراط ہموار کردیتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی کچھ اسی طرح ہوا۔
میرا تعلق ایک پسماندہ گاؤں سے ہے ۔ جس کے اہالیان ناخواندہ تھے۔میرے والدین مڈل کلاس تک پڑھے ہوئے تھے۔ لیکن معاشرے اور حالات کے پیش نظر آگے نہ پڑھ سکے ۔ تاہم وہ چاہتے تھے کہ میں پڑھ لکھ کر ایک بہت بڑا انسان بن جاؤں۔
بچپن میں مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ کانچ کھیلتا ، پتنگ اڑاتا۔ سکول جانے سے میری جان جاتی تھی۔ اکثر میں اساتذہ سے آنکھیں چھپا کر بھاگ نکلتا ، جسے ہماری اصطلاح میں ’’کھسکنا ‘‘ کہتے تھے۔ جیسے تیسے میں نے میٹرک کے امتحانات پاس کر لیے۔
میرے والد کس پیشہ سے تعلق رکھتے تھے ، شروع میں یہ میرے علم میں نہ تھا۔ وہ صبح جاتے اور شام کو کھانے کا کچھ سامان لیے گھر لوٹ آتے ۔
ایک دفعہ یوں ہوا کہ میرے والد گھر آئے اور بتایا کہ انہیں شہر میں کام مل گیا ہے ۔ کام کی غرض سے وہ شہر چلے گئے۔وہاں میرے والد کی ملاقات بعض پڑھے لکھے لوگوں اور علماء سے ہوئی ۔ میرے والد پڑھے لکھے لوگوں کی بہت قدر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ان سے میری تعلیم کے بارہ میں بات کی اور مشورہ طلب کیا۔ ان کے مشورہ پر میرے والد نے مجھے اس شہر کی یونیورسٹی میں داخلہ لے دیا۔اس یونیورسٹی میں ایف –اے سے ایم- فِل تک کی سہولت میسر تھی اور اس کا شمار ملک کی بہترین یونیورسٹیز میں ہوتا تھا۔
لیکن میرا اور پڑھائی کا کیا سمبندھ ۔ میں نے یونیورسٹی میں بھی اپنی برادری کے دوست ڈھونڈ لیے جن کا کام صرف مزے کرنا اور زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونا تھا۔ پہلے دو سال یوں ہی گزر گئے اور میں رعایتی نمبروں سے پاس ہو کر تیسرے سال تک پہنچ گیاجس کا اس وقت تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ یونیورسٹی میں گرمی کی چھٹیاں اگست کے مہینہ میں ہی ہوا کرتی تھیں ۔
ہوسٹل کے بِل کی ادائیگی کبھی میں نے نہیں کی تھی بلکہ والد ہی اکاؤنٹنٹ کو پیسے دے جایا کرتے تھے اور مجھے معلوم بھی نہ ہوپاتا ۔ میری رہائش ایک نہایت ہی عمدہ اور زیبائش والے ہوسٹل میں تھی۔ دوستوں کے ساتھ عیاشی اور موج مستی کے لیے میں اپنے گھر سے کسی بہانے پیسے منگواتا رہتا ۔ میرے کمرے کی کھڑکی کے پاس میں ہی ایک پہاڑی تھی۔
یوں ہی معمول پر زندگی گزر رہی تھی ۔ لیکن پھر ایک دن کیا ہوا؟ جولائی کا مہینہ تھا۔ گرمی ایسی سخت تھی کہ جیسے تنور کو آگ کے ذریعہ تپایا ہوا ہو۔ میں دوستوں کے ساتھ پتے کھیل رہا تھا کہ اچانک ہوسٹل کی بجلی بند ہو گئی ۔ دوستوں نے مجھے کھڑکی کھولنے کا کہا ۔ میں اٹھا اور کھڑکی کھول دی ۔ جو کھڑکی سے جھانکا تو میری دنیا بدل گئی ۔ سورج اپنے جوبن پر تھا اور دھوپ کی وجہ سے سراب نظرآ رہی تھی۔ پانی بھاپ بن کر اڑ رہا تھا ۔ یہاں تک کہ مجھ سے باہر سے آنے ولی لُو بھی برداشت نہیں ہو رہی تھی ۔ لیکن دیکھا کہ ایک عمررسیدہ ، پسینے سے شرابور شخص بوسیدہ لباس پہنے ، بڑا اور وزنی ہتھوڑا پکڑے پہاڑی کے پتھر کوٹ رہا ہے ۔میں نے انہیں پہچان لیا۔
میری نگاہیں ندامت سے جھک گئیں ۔ میں نے اپنی آنکھوں پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن اس پر قدرت نہ پا سکا اور میرے آنسو بہنے شروع ہوگئے۔ روتے ہوئے بھاگ کر میں ہوسٹل سے باہر نکلا ۔ اور ان سے لپک گیا ۔ وہ میرے والد تھے۔میرے والد کو معلوم نہ تھا کہ میرے کمرہ کی کھڑکی اسی طرف کھلتی ہے اور میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نےاپنی تکان چھپا لی اور ہمیشہ کی طرح مسکرانے لگے۔مجھے اس دن معلوم ہوا کہ میرے والد مزدوری کرتے تھے۔ میں نے اپنے والد سے کہا ’’ ایسا سخت کام آپ اس سخت گرمی میں کیسے کر سکتے ہیں‘‘۔ والد نے جو مجھے جواب دیا تو میری آنکھیں جھک گئیں ۔ کہنے لگے’’ تمہارا یہ سمسٹر مکمل ہونے کو ہے اور اگلے سمسٹر کی فیس بھرنی ہے نیز کتابیں بھی تو خریدنی ہیں‘‘۔ میں نے روتے ہوئے کہا: ’’نہیں کرنی مجھے پڑھائی۔میں ایسے آپ کو کام کرتے نہیں دیکھ سکتا۔میں بھی آپ کے ساتھ کام کروں گا۔‘‘ والد نے ان کلمات پر خفگی کا اظہار کیا اور اپنی قسم دیتے ہوئے کہا ’’بیٹا تم ہرگز پڑھائی نہیں چھوڑو گے۔ تمہارے لیے تو میں نے بڑے بڑے خواب دیکھے ہیں ۔ تم پڑھ لکھ کر ایک بہت بڑے عالم بنو گے ۔ یہی میری خواہش ہے۔‘‘
مجھے ان کی بات ماننا پڑی۔ اگلے روز اپنی تدریس مکمل ہونے کے بعد میں بھاگا بھاگا اسی جگہ گیا جہاں میرے والد گزشتہ روز کام کر رہے تھے تاکہ میں ان کی مدد کروا سکوں۔لیکن وہ وہاں نہیں تھے۔ شاید وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں انہیں کام پر دیکھ کر اپنی پڑھائی کا حرج کروں۔
میں نے ارادہ کیا کہ میں واپس گھر چلے جاؤں گا اور اپنے ماں باپ کے لیے کام کروں گا اور انہیں کام پر نہیں جانے دوں گا۔ لیکن اگلے روز ہی ایک خط ملا جس میں لکھا تھا۔
’’ بیٹا اگر تم اپنے والدین کو خوش دیکھنا چاہتے ہو اور سچ میں والدین کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو والدین کے خواب کو پورا کرو ۔ ہوسٹل میں رہ کر خوب پڑھائی کرو۔ اور ایک روز بہت بڑے عالم بن کے دکھاؤ۔‘‘
یہ خط مجھے 5 جولائی کو ملا۔ اسے پڑھ کر بادل ناخواستہ مجھے اپنی پڑھائی جاری رکھنی پڑی۔ لیکن اس ایک نظارہ نے مجھے پل صراط پہ لا کھڑے کیا۔ میں نے ایسے دوستوں سے جو وقت ضائع کرتے تھے ملنا بہت کم کر دیا اور اپنی توجہ پڑھائی پر مرکوز کر لی ۔ میرا دل کھیل کود سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ جب بھی پڑھائی کے علاوہ کوئی کام کرنے لگتا ، میری آنکھوں کے سامنے اس دن کا نظارہ آ جاتا جب میں نے اپنے باپ کو آگ کے انگاروں پر ، پسینے سے شرابور کام کرتے دیکھا۔ اس ایک منظر سے میری زندگی بدل چکی تھی اور میرا جسم لرز اٹھا تھا۔ پہلے اساتذہ اور بزرگان وعظ کرتے تھے تو وہ سب فضول باتیں لگتی تھیں ۔ لیکن اب اس کے برعکس تھا۔
اگلے پندرہ روز میں میں نے سخت محنت کی اور پہلی ٹرم میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ یکم اگست سے چھٹیاں تھیں۔ میں نے اپنے گھر کی ٹکٹس کروائیں اور روزانہ ہوگیا۔
جب میں اپنے گاؤں پہنچا تو میری ملاقات میرے گاؤں کے دوستوں سے ہوگئی۔ انہوں نے تعزیت کی صورت میں کہا:
’’ میرے پیارے دوست! رب کو جو منظور ہو وہی ہوتا ہے ۔ ‘‘
میں نے پوچھا’’ تم لوگوں کو کیا ہوا ہے ۔ ایسے بھیگی نگاہوں سے کیسی باتیں کر رہے ہو۔ ‘‘
دوسرے دوست نے بتایا کہ ’’تمہارے والد اس دنیا میں نہیں رہے‘‘۔
یہ سنتے ہی زمین میرے پاؤں سے نکل گئی۔ مجھے ان کی باتوں پہ یقین نہ ہو رہا تھا۔ میری حالت نیم مردہ کی سی ہوگئی۔ اور میں زار و قطار رونے لگا۔
دوستوں نے مجھے سینے سے لگا لیا ۔ اور بتایا کہ انہیں فوت ہوئے تقریباً ایک مہینہ بیت گیا ہے ۔ ہمیں تمہاری والدہ نے اطلاع دینے سے سختی سے منع کیا تھا ۔ پھر انہوں نے مجھے سنبھلنے کا کہا اور کہا کہ تمہاری عمر رسیدہ ماں پہلے سے صدمے میں ہیں۔ ان کو حوصلہ دو اور صبر کی تلقین کرو۔
میں نے اپنے دل پر پتھر رکھا اور جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنے گھر داخل ہوا۔ میری والدہ مجھے دیکھ کے رو پڑیں۔ میرے بھی آنسوؤں کا بند ٹوٹ گیا۔ میں ان کے گلے لگ گیا اور لرزتے الفاظ سے ان کو حوصلہ دینے کی کوشش کی ۔ جب ہمیں کچھ افاقہ ہوا تو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ میرے والد کو کیا ہوا کہ وہ چل بسے اور آپ نے مجھے خبر کیوں نہ دی ۔
میری والدہ نے بتایا :’’ 4جولائی کو جب تمہارے والد شہر سے واپس آئے تو تپ سے سخت بیمار تھے ۔ میں نے انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہا لیکن انہوں نے ضد کی اور کہا کہ معمولی سا بخار ہے ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن جب رات ہوئی تو ان کی سانسیں اکھڑنے لگیں اور انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر اپنی وصیت سنائی کہ میرے بیٹے کو میری موت کی خبر نہ دینا وگرنہ اس کی پڑھائی میں حرج ہو جائے گا۔ اور میرے بعد اس کی پڑھائی کی ذمہ داری تمہاری ہوگی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک پوٹلی کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کیں اور وہیں ان کی نگاہیں ٹِک گئیں۔ وہ وفات پا چکے تھے۔
اس پوٹلی میں ایک خط تھا جو میں نے اگلے روز تمہیں بھیج دیا تھا۔ اور کچھ رقم تھی جو انہوں نے تمہارے دوسرے سمسٹر کی فیس اور ہوسٹل کی فیس کے لیے جمع کر رکھی تھی‘‘۔
میں یہ سنتا جا رہا تھا اور اندر سے میرا دل چھلنی ہوا جاتا تھا۔میں نے اپنی والدہ سے کہا ’’ اب میں پڑھائی نہیں کروں گا بلکہ کوئی کام ڈھونڈ کر گھرکی دیکھ بھال اورآپ کی خدمت کروں گا۔‘‘
یہ سن کر میری والدہ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا ’’ تم آگے پڑھو گے ۔ تمہارے والد نے تمہاری پڑھائی کے لیے مجھے رقم دی ہوئی ہے ۔ اور مجھے کپڑے سینے کا شوق ہے ۔ میں کپڑے سی کر بہت سا پیسہ کما سکتی ہوں ۔ لیکن تم نے اگر آئندہ پڑھائی چھوڑنے کی بات کی تو تم میرا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پاؤ گے۔‘‘
آخر مجھے اپنی والدہ کی بات ماننا پڑی ۔ میری والدہ نے جو یہ کہا کہ تمہارے والد نے تمہاری پڑھائی کے لیے رقم جمع کر کے مجھے دی ہوئی ہے وہ انہوں نے جھوٹ بولا تھا۔ انہوں نے میری پڑھائی کے لیے اپنا تمام زیور بیچ دیا۔اور کپڑے سی سی کر میرے ہوسٹل کا کرایہ اور میری پڑھائی کی فیس بھرتی رہیں ۔ میں نے دن میں 18-18 گھنٹے پڑھائی کرنا شروع کر دی اور ایک دو گھنٹے شہر کے پریس میں جا کر اخباروں کی کتابت کا کام شروع کر دیا۔ اس طرح کچھ محنت کر کے میں فیس جمع کرتا رہتا اور پڑھائی جاری رکھی۔
اپنے والدین کی دعاؤں سے میں نے ہر سال اول پوزیشن حاصل کی ۔ اور اس طرح میری ایم فِل مکمل ہو گئی ۔ اب میری والدہ نے مجھے Phd.کرنے کا کہا ۔ اس کے لیے انہوں نے گھرکا ایک حصہ بیچ دیا اور کہا کہ مجھے تو ایک کمرہ ہی رہنے کے لیے کافی ہے ۔ میں اپنی والدہ سے کہیں دور جانا نہیں چاہتا تھا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر کہ بیٹا یہ تمہارے والد کی آخری وصیت تھی اور میری بھی تمہیں یہی وصیت ہے کہ اپنی پڑھائی مکمل کر کے ایک بڑے عالم بن جاؤ۔انہوں نے مجھے Phd. کے لیے امریکہ بھیج دیا اور خود بڑھاپے کی عمر میں بھی اکیلے ہی گزر بسر کرتی رہیں۔اپنے خط میں بھی کبھی کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا بلکہ بتاتیں کہ وہ بہت خوش ہیں۔
امریکہ میں پی-ایچ-ڈی کے دوران میں نے ریسرچ کے میدان میں مختلف تحقیقات کیں اور سائنس کے میدان میں نئی ایجادات کی بنیاد ڈال دی۔ مجھے اتنی شہرت ملی کہ پی -ایچ -ڈی کے دوران ہی مجھے مدرس کے طور پر رکھنے کے لیےدنیا کی مختلف یونیورسٹیز سے پیغام آنے لگے ۔
پی-ایچ-ڈی میں میں نے اول پوزیشن حاصل کی ۔ اور یہ خوشخبری دینے میں اپنی والدہ کو دینے گاؤں واپس چلا آیا۔ لیکن جب میں گاؤں پہنچا تو معلوم ہوا کہ میری والدہ سخت بیمار ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ میں وہاں سے ہسپتال کو بھاگا۔ میں نے اپنی والدہ کو انتہائی نحیف اور کمزور پایا ۔ ان سے بولا تک نہیں جاتا تھا۔ میری والدہ نے اشاروں سے پوچھا کہ تم کیسے ہو؟ میں نے بتایا کہ میں نے اپنے والد اور والدہ کی وصیت اور خواب کو پورا کر دیا ہے اور میں نے اپنی پی -ایچ -ڈی امریکہ کی یونیورسٹی میں اول پوزیشن سے مکمل کر لی ہے ۔ میری والدہ یہ سن کر مسکرائیں اور اسی مسکراہٹ کے ساتھ ساکت ہو گئیں۔ میں نے والدہ کو آواز دی ’’ماں ، ماں ‘‘ ۔ لیکن ان کی حرکت قلب بند ہو چکی تھی۔ اور وہ جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ مجھے اس کا بہت صدمہ ہوا۔
مجھے پرانے دن یاد آئے جب میں عیاش اور لاپرواہ تھا ، پڑھائی سے سخت نفرت کرتا تھا۔ لیکن میری والدین کی محنت اور قربانی سے اب مجھے دنیا بھر کے علماء اور سائنسدان جانتے تھے۔
میں نے مختلف یونیورسٹیز میں پڑھایا اور ریسرچ کے شعبہ میں ایسی تحقیقات پیش کیں کہ میری وفات کے بعد انہیں تحقیقات کو بنیاد بنا کر سائنسدانوں نے نئی ایجادات کا سلسلہ شروع کیا۔ مجھے زندگی میں بڑے سے بڑا ایوارڈ ملاجن میں سے ایک نوبل پرائز بھی تھا ۔ لیکن سب سے بڑا ایوارڈ جو مجھے ملا وہ میری والدین کی دعائیں تھیں۔ میں نے اپنے گاؤں میں سکول کے بعد کالج ، پھر یونیورسٹی تعمیر کروائی ۔ اور علم کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے بہت سے مضامین اور کتب لکھیں۔ ان میں سے ایک مضمون ’’ تعلیم دینے کے لیے والدین کی قربانی ‘‘ کے موضوع سے شائع کیا۔قارئین جو مضمون پڑھ رہے ہیں اسی کا خلاصہ ہے ۔
میری اس آپ بیتی میں طالب علموں کے لیے بھی نصیحت ہے اور والدین کے لیے بھی ۔
طالب علموں کو اچھے دوست چننے چاہیں ۔کیوں کہ صحبت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے والدین کی قدر کریں ۔ ان کے روپوں پیسوں کو عیاشیوں میں نہ اڑائیں ۔ بلکہ اپنا پورا زور لگا دیں کہ آپ نے پڑھ لکھ کر ایک بڑا آدمی بننا ہے۔ محنت سے آپ بڑے سے بڑا مقام حاصل کر سکتے ہیں ۔
والدین کو بھی چاہیئے کہ اپنی اولاد کو علم کے زیور سے آراستہ کرائیں ۔ خواہ اس کے لیے انہیں کیسی ہی قربانیاں دینی پڑیں۔ اسی طرح اپنے عمل سے بچوں کی تربیت کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ عمل ، ہزاروں نصائح سے زود اور بہتر اثر کرتا ہے۔
عربی میں ایک مقولہ ہے : اُنْظُرْ اِلیٰ مَا قِیْلَ وَلَا تَنْظُرْ اِلیٰ مَنْ قَالَ۔ یعنی یہ دیکھ کہ کہا کیا جا رہا ہے یہ نہ دیکھ کہہ کہنے والا کون ہے۔اس لیے آپ کو میرا نام جاننے کی ضرورت نہیں۔
(کہانی نویس :- اردو )