columns لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
columns لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 2 نومبر، 2021

ماں ایک عظیم نعمت

 ماں ایک عظیم نعمت


تحریر: لعل ڈنو شنبانی
Lal Dino Shanbani

گھر سماج کے ایک چھوٹے سے  حصے کا نام ہوتا ہے مگر اس حصے کی بہت بڑی اہمیت 
ہوتی ہے،کسی بھی گھر یا خاندان کے افراد اس گھر کا حصہ ہوتے ہیں۔اگر خاندان کے 
افراد اچھے، سلجھے ہوئے اور منظم ہوتے ہیں تو وہ سلجھا ہوا گھرانہ کہلائے گا۔

ایسے گھر کے افراد میں بہتری اور اچھائی کی توقع کی جا سکتی ہے جن میں 
محبت،ہمدردی،عاجزی،عزت ،احترام اور  رشتوں کی قدر ہو۔ رشتہ چاہے کوئی بھی ہو 
اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،اس لیے ہر طرح سے اس کا خیال رکھا جائے۔ایک واقعہ کا 
مفہوم بھی ہے حضور اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب ؓ سے یوں فرمایا تھا کہ اگر 
تم سے کوئی تعلق توڑنا چاہے تو تم اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش کرو۔

رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک خون کے رشتے اور دوسرا سماجی رشتے۔خون کے رشتوں 
میں اکثریت گھر کے افراد کی ہوتی ہے جس میں ماں باپ،بہن بھائی،دادا دادی،نانا 
نانی وغیرہ شامل ہوتے ہیں اور سماجی رشتوں میں اہل محلہ ،پڑوسی،گاوں یا شہر کے 
لوگ،دوست،استاد اور تمام اہل وطن آ جاتے ہیں۔ جو تمام رشتیداروں اور تعلقداروں 
سے جتنا اچھا سلوک کرے گا ان کے دلوں میں اتنی جگہ بنا پائے گا اور سماج میں 
اسے عزت کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے گا۔


خونی رشتوں میں سب سے زیادہ اہمیت ماں باپ کی ہوتی ہے اگر اس کو مزید مختصر 
کیا جائے تو ماں کی عظمت بہت وسیع ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قرآن مجید میں 
والدین سے لفظ 'اف' تک کہنے  سے بھی منع فرما کر ان کے مقام و مرتبہ کو واضح 
فرمایا۔حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔اگر ہم اپنے 
سماج میں آس پاس نظر دوڑا کر ذرا جھانکنے کی کوشش کریں تو یقیننا یہی نتیجہ 
ملتا ہے کہ جنہوں نے اپنے ماں باپ کی فرمانبرادری،عزت و تکریم کی وہ کامیاب 
ہوئے اور جنہوں نے اپنے ماں باپ کا حق ادا نہ کیا وہ آج تک ناکام ہیں۔ماں باپ 
کے نافرمان چاہے جتنی بھی کوشش،مشقت اور محنت کرتے ہیں پھر بھی ناکامی انک 
مقدر بن جاتی ہے اس کے برعکس والدین کے فرمانبرداروں کے لیے کامیابی کی اسباب 
خود بخود اس طرح نکل آتے ہیں جس کا انہوں نے خوابوں میں بھی اندیشہ نہ کیا ہو۔

ماں کو مختلف زبانوں میں ام، ممہ،ممی ،امی،اماں،مم،آئی اور مائی وغیرہ پکارا 
جاتا ہے،ماں کے  نام کا آواز اردو کے حرف میم کے ارد گر گھومتا رہتا ہے،دراصل 
ماں کے ناموں کا انتخاب پیدا ہونے والے نوزائدہ معصوم بچے یا بچی کی موں سے 
نکلنے والے الفاظ  'ام،مم،اوماں' سے کیا گیا ہے،چاہے بچہ کسی عرب کا ہو یا عجم 
کا اس کے شروعاتی آواز میں پائی جانے والی الفاظ کی شکل ایک جیسی ہوتی ہے۔


ماں کو اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے نرالے اور شاندار انداز میں پیدا فرمایا اور 
اسے خوبیوں سے نوازا کہ ماں  اپنے بچوں پر بڑی شفیق ہوتی ہے،راتوں اور دنوں کو 
اپنے بچوں پر اپنا سکون قربان کرنے والی ذات ماں ہی کی ہوتی ہے۔چاہے کوئی کسی 
بھی مذہب یا نسل سے ہو وہ ماں کی عظمت کا انکار نہیں کرسکتا۔  اسی ماں کی عظمت 
کو عیاں کرنے کے لیے یومِ ماں ، ماں کا عالمی دن، یوم مادر یا ماؤں کا دن ہر 
سال  مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے، عالمی طور پر اس کی کوئی ایک متفقہ تاریخ 
نہیں، یہ دن مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں پر ملہائی جاتی ہے۔اکثر یورپی 
ممالک میں مئی کے دوسرے اتوار کو جبکہ بعض عرب و مسلم ریاستوں میں 21 مارچ کو 
یوم مادر کا درجہ دیا گیا ہے،کئی ایسے ممالک بھی ہیں جو یہ دن 
جنوری ،مارچ ،نومبر یا اکتوبر میں مناتے ہیں۔  اس دن کو منانے کا مقصد اپنی 
والدہ کی اہمیت کا احساس کرنا، ان کی خدمت کرنا اور انہیں خوشی دینا ہے۔اس دن 
پر اولاد اپنی ماوٴں کو تحائف وغیرہ بھی پیش کرتے ہیں۔

ماں ایک عظیم نعمت ہے۔جن کی مائیں سلامت ہیں، انہیں چاہیے کہ ان کی جدائی سے 
پہلے ان کی خدمت کرکے انہیں راضی کریں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماں کی 
رضا اللہ تعالی کی رضا کا سبب ہے۔

منگل، 20 اپریل، 2021

اقوال زریں | ہیروں اور جواہرات سے قیمتی نصائح | سوچ کے بارہ میں اقوال

 

Pure water - nature beauty

سوچ کے بارہ میں اقوال

 انسان کو ہمیشہ اچھا سوچنا چاہیئے.  بری سوچ کو ذہن سے نکال دینا چاہیئے.  
√ انسان کی سوچ اس کی شناخت کرواتی ہے.  
√ اگر چہرے پر رونق لانا چاہتے ہو تو اپنی سوچ کو بھلا اور صاف کر لو. 
√ دنیا کو بدلنے سے پہلے ہر کسی کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی. 
√ سوچنا سمجھنا عقل مندوں کا کام ہے اور بغیر سوچے سمجھے کچھ کرنا, کہنا , رہنا سہنا کم عقلی اور کم فہمی کی علامت ہے. 
√ جو لوگ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں وہ کم بولتے ہیں.
√ سوچ سمجھ کر بولنے سے بعد کے پچھتاوے سے انسان بچ جاتا ہے.  
√ سوچ بچار کرنے سے انسان کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں. 
√ سوچ سمجھ انسان اور دیگر حیوانات میں فرق کرتی ہے.  
√ ہر کسی کو سوچ و بچار کرنے کا حق ہے.  اچھی سوچ کی قدر کرنی چاہیئے. اور بری سوچ کو معاشرے سے باحسن طریق اور دلائل قطعیہ کے ساتھ رد کرنا چاہیئے.  
√ یہ مت سوچیں کہ کوئی آپ کے بارہ میں کیا سوچتا ہے.  ترقی میں یہ بات سب سے بڑی رکاوٹ ہے. 
√ انسان کی سوچ محدود ہے. اور لا محدود چیزوں کے بارہ میں سوچنے سے قاصر بھی. 

یادوں کے بارہ میں اقوال | یاد کے بارہ میں | جب کسی کی یاد آئے تو

Rose

یادوں کے بارہ میں اقوال

√جب کسی کی یاد آتی ہے تو انسان اس عالم سفلی سے نکل کر ایک نئے عالم میں اپنے آپ کو پاتا ہے.
 √کسی کو یاد کرنا محبت کی ایک علامت ہے.
√اسی کے ذکر میں نکلے میری جان 
کہ یاد یار میں بھی اک مزہ ہے
√جب انسان کسی کو یاد کرتا ہے تو اسے اس یاد کی چاشنی سے مٹھاس حاصل ہوتی ہے. خواہ یادوں میں محبت کی صعوبتیں اور تلخیاں ہی کیوں نہ ہوں.  

منگل، 16 مارچ، 2021

کاہلی اور سستی کی وجوہات اور انہیں دور کرنا

For seeing the image please use the web version

 کاہلی اور سستی کی وجوہات اور انہیں دور کرنا

1:۔ تھکاوٹ:۔

دراصل تھکاوٹ انسانی جسم کا جزو لازم ہے۔ لیکن چھوٹے چھوٹے کام پر تھکاوٹ اس وجہ سے ہو جاتی ہے کیونکہ ہمیں محنت کی عادت نہیں ہوتی۔ کچھ دیر کام کر کے ہم محسوس کرتے ہیں کہ اب ہم تھک گئے ہیں اور ہمیں اب آرام کرنا چاہیئے جبکہ یہ سستی اور کاہلی ہی کی ایک عادت ہے۔ اور یہ عادت بڑھتی ہی رہتی ہے ۔ کم نہیں ہوتی۔ اس کو دور کرنے کا طریق میں آگے چل کے بتاؤں گا۔

2:۔ دل نہ کرنا:۔ 

سب سے بڑی وجہ سستی کی کسی کام کا دل نہ کرنا ہے۔ مثلاً دفتر 7 بجے پہنچنا تھا۔ صبح جلد اٹھنے کو دل نہ کیا۔ یا شادی پہ جانا تھا تو وہاں جانے کا دل نہ کیا تو نہ گئے۔ آپ ہر بات دل کی نہ مانیں بلکہ دماغ سے سوچیں اور ایسا فیصلہ کریں جس کا مستقبل میں نتیجہ اچھا نکلے۔ اگر آپ دل نہ کرنے کی وجہ سے سستی کر جاتے ہیں تو اس سے مزید سستیاں جنم لے لیتی ہیں۔ جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا۔ 

3:۔ جھوٹی عزت:۔ 

ہم بعض کاموں میں سستی صرف اس لیے کر جاتے ہیں کیونکہ ہم سوچتے ہیں کہ فلاں ہمارے بارے میں کیا سوچے گایا کیا کہے گا؟ سکول میں وہ طالب علم جنہوں نے ابتداء ہی سے مطالعہ کی عادت نہیں اپنائی ہوتی وہ پڑھائی اس لیے شروع نہیں کر پاتے کہ ان کے دوست یا دیکھنے والے کہیں گے کہ بڑا پڑھاکو بن گیا ہے یا ڈرتے ہیں کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ کتابی کیڑا بن گیاہے۔ 
پھر ہم سستی اس وجہ سے بھی کر لیتے ہیں کہ اس سے پہلے سستی کر چکے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجہ سے ڈر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ڈر ہوتا ہے کہ جس کے معاملہ میں سستی کی ہے وہ ہمیں ڈانٹے گا۔ یا ہم سے جواب طلبی کرے گا۔ یہ نہیں سوچتے کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔ اگر آپ نے سستی کر لی اور اب اس لیے سستی کر رہے ہیں کہ آمنا سامنا ہوگا تو باتیں سننی پڑیں گی تو ایسا نہ سوچیں ۔ کیونکہ یہ بات سستی کرنے سے پہلے سوچنے والی ہوتی ہے۔ اب اگر سوچنا ہی ہے تو یہ سوچیں کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائےگا۔ مثلاً اگر آپ کے دوست نے آپ کو شادی پہ مدعو کیا۔ لیکن آپ کا دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ آپ نہیں گئے ۔ اس کے فون آتے رہے آپ نے نہیں اٹھائے۔ اب شادی گزرنے کے بعد آپ اس سے اس لیے نہیں ملنا چاہیں گے کہ پتا نہیں وہ کیا کہےگا۔اکثر اوقات جب آپ مل لیں تو کوئی بڑی بات نہیں ہوتی ، مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اور کوئی بات ہوتی بھی ہے تو جلد ہی حل ہو جاتی ہے۔ 
اوپر بیان کی گئی مثالیں اور دیگر ایسے امور جن میں ہم سستی کر جاتے ہیں ان کی ایک بنیادی وجہ یہی جھوٹی عزت ہوتی ہے۔ ہم اپنی جھوٹی عزت کو بچانے کے لیے مزید کاہلی اور سستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی جھوٹی عزت کو ماریں ۔ اور اپنے نفس کو ٹٹول کر سوچیں کہ اس میں میری عزت کی دھجیاں اڑتی ہیں یا سستی کر کے غلط کام کرنے سے؟ 
جھوٹی عزت وقتی طور پر ساتھ دیتی ہے اور وہ بھی غلط کاری پر قائم رکھنے کی خاطر جبکہ اگر آپ اس جھوٹی عزت کا قلع قمع کرتے ہیں تو مستقبل میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ 

4:۔سستی اور کاہلی کی چوتھی بڑی وجہ:۔

سستی کی تیسری بڑی وجہ وقت زیادہ اور کام تھوڑا ہونا ہے۔ وقت زیادہ ہو تو ہم کہتے ہیں یہ کام اب نہیں ، دوگھنٹے بعد کروں گا، آج نہیں کل کروں گا، اس ہفتہ نہیں اگلے ہفتہ کروں گاوغیرہ۔ اگر آپ کا شیڈول مصروف ہے تو آپ سستی نہیں کریں گے۔ اس لیے اپنا شیڈول مصروف بنائیں۔ شیڈول میں کوئی بھی وقت فراغت کا نہ رکھیں یا کم از کم تمام کاموں کے بعد رکھیں۔

5:۔ سستی کی پانچویں بڑی وجہ :۔ 

سستی کی چوتھی بڑی وجہ ترجیحات کو نہ سمجھنا اور انہیں ترتیب نہ دینا ہے۔ اس بارہ میں خاکسار ’’ترجیحات کی اقسام اور انہیں ترتیب دینا‘‘ پر مفصل مضمون لکھ چکا ہے۔ آپ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔ (اسی موضوع پر کلک کر کے مضمون پڑھ سکتے ہیں)۔ 

6:۔ آپ کا ماحول:۔

سستی کی چھٹی بڑی وجہ آپ کا ماحول ہے ۔ اگر آپ ایسے دوستوں میں اٹھک بیٹھک رکھیں گے جو اکثر اوقات فراغت اور لغویات میں گزار دیتے ہیں اور کوئی مشغلہ نہیں رکھتے تو آپ بھی متأثر ہو کر سستی کا شکار ہو جائیں گے۔ (ہر چیز اور اور فرد ایک اثر رکھتا ہے جس سے اس کی مصاحبت میں رہنے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔)
اسی طرح اگر آپ لیٹ کر کام کریں گے تو اس سے بھی آپ کام میں کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کریں گے۔ 
بیٹھ کر کام کریں۔ ان دوستوں کے ساتھ وقت زیادہ گزاریں جو محنتی اور چاک و چوبند ہیں اور کام کار میں مصروف رہتے ہیں۔ 
نیز کرسی پر بیٹھتے ہیں تو چست ہو کر بیٹھیں۔ 

سستی دور کرنے کے مزید طریق 

1:۔ابتداء میں اپنے لیے چھوٹے چھوٹے چیلنج ترکیب دیں ۔ مثلاً اگر آپ کتابیں نہیں پڑھتے تو اپنے آپ سے یا کسی دوست کے ساتھ چیلنج لگا لیں کہ میں پورا ہفتہ روزانہ کم از کم ایک صفحہ کتاب کا مطالعہ ضرور کروں گا۔ 
میں مکرر عرض کرتا چلوں کہ چیلنج چھوٹا رکھیں جو آپ پورا کر سکتے ہوں اور آپ کی سوچ میں وہ چیلنج معمولی ہو۔ اگر آپ 100 صفحات پڑھنے کا یا پورے سال ایک صفحہ ہی پڑھنے کا چیلنج پہلے دین سے ہی ترکیب دے لیں گے تو دو چار دن بعد ہی اس کام کو ناممکن یا لغو اور کھیل سمجھ کر آپ چھوڑ دیں گے۔
2:۔ کام کی نوعیت اور اس کی اہمیت کو سمجھیں اور قبل از وقت بار بار سوچیں کہ اگر کام نہ ہوا تو اس کے بدنتائج کیا ہونگے ۔ اس سے آپ کو احساس پیدا ہوگاکہ آپ اپنا کام جلد مکمل کر لیں۔ 
3:۔ اگر آپ کام نہیں کر سکے تو جھوٹ یا عذر کا سہارا ہر گز نہ لیں ۔ کیونکہ اس سے آپ مزید سستی اور کاہلی کا شکار ہو جائیں گے۔ اور مستقبل میں ناکام ۔ اگر وقتی طور پر آپ کو اپنے دوست ، افسر یا جس کا کام تھا اس سے ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا باتیں سننا پڑتی ہیں تو سن لیں کیونکہ اس سے آپ اگلی بار اپنا کام وقت پر کرنے کی کوشش کریں گے۔ 

4:۔ مضبوط قوت ارادی 

آپ اپنے ہدف اکٹھے کریں اور ان کو پورا کرنے کا مصمم ارادہ کریں ۔ اپنے ارادہ کو جتنا آپ پختہ کرتے جائیں گے اتنا آپ قوت ارادی سے نکل کر قوت عملی کی طرف بڑھتے جائیں گے۔ 

5:۔اپنی سوچ کو الٹا کر دیکھیں 

اگر آپ سستی اس لیے کرتے ہیں کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے بعد میں کر لو گاابھی آرام کر لیتا ہوں یا موبائیل پر گیمز کھیل لیتا ہوں تو آپ اپنی سوچ کو الٹا کر کے دیکھیں ۔ آپ پہلے کام کا وقت مقرر کرلیں پھر آرام کا یا موبائل استعمال کرنے کا۔ یعنی اگر دو گھنٹے کا کام ہے اور آپ کے پاس چار گھنٹے ہیں تو کیوں نہ آپ پہلے دو گھنٹوں میں کام کر لیں اور اگلے دو گھنٹے موبائل یا آرام کے لیے مخصوص کریں۔

6:۔مطمح نظر بلند کریں

اس سے یہ مراد نہیں کہ آپ بڑے عہدے کی خواہش کریں یا بڑے مقام کی ۔ یہ تمام کام خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیں ۔ آپ مطمح نظر ہر کام میں ترتیب دیں۔ جیسے اگر آپ کو آپ کے دوست نے دعوت پہ بلایا ہے تو دعوت پر جانے کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں جیسے اچھے کھانے کھانا، اگر شیخ ہیں تو گھر کا کھانا بچانا وغیرہ ۔ لیکن آپ اپنا مطمح نظر دوست کی رضامندی اور خوشنودی رکھیں گے تو آپ سستی کو مات دے سکیں گے۔ مضمون طوالت اختیار کر رہا ہے۔ مزید باتیں اگر پوچھنے والی ہوں تو کمنٹ میں آپ پوچھ سکتے ہیں۔ 

7:۔ ورزش 

روزانہ کم از کم 1گھنٹہ ورزش ضرور کریں اس سے آپ اپنی سستی اور کاہلی کو آسانی سے دور کر سکیں گے۔

8:۔ مناسب آرام

رات کا وقت سونے کے لیے مخصوص رکھیں۔ لغویات میں وقت صرف نہ کریں۔ موبائل پر رات گئے نہ بیٹھے رہیں۔اگر آپ رات کے کم از کم 6 گھنٹے اچھی نیند سوتے ہیں تو آپ کو دن بھر سستی اور کاہلی محسوس نہیں ہوگی۔

9:۔ صبح وقت پر اٹھیں

طلوع فجر سے قبل اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ صبح کی سیر انسان کو تروتازہ اور صحت مند و توانا رکھتی ہے۔

اتوار، 14 مارچ، 2021

کنوارے پن پر ایک اور وار

میں (موقعہ مناسب جانتے ہوئے): دیکھیں نا اماں ! بڑے بھائیوں کو کتنا احساس ہوتا ہے چھوٹے بھائیوں کا ۔ میری ہی قسمت پھوٹی تھی…😥 بڑا بھائی: ہاہاہا😅😅۔ (بھائی نے بھی ساتھ تو دیا اور کہا)اماں دیکھ لیں۔ اب تو یہ خود کہنے لگ گیا ہے۔ اب جلد اس کی شادی کروا دیں۔ 😀 اماں جی: (مجھے مخاطب کرتے ہوئے) تمہیں وقت پہ روٹی مل رہی ہے۔ کپڑے استری مل رہے ہیں اور کیا چاہیئے تمہیں؟😱
کنوارے پن پر ایک اور وار

لَا جَدِیْدَ تَحْتَ الشَّمْسِ: یہ عربی کا محاورہ ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ کوئی نئی بات نہیں ۔ زندگی اپنی ڈگر پہ ہی چل رہی ہے۔ 
 صبح اٹھے ۔ آفس گئے۔ واپس آئے ۔ سو گئے۔ موبائیل چھیڑ ا ۔ پھر سو گئے ۔ یوں ہی دن گزر رہے ہیں۔ اور شاید یوں ہی گزرتے جائیں گے۔ بہت کی کوشش کر چکا ہوں کہ زندگی کو بدل دوں اور ایسی زندگی جیوں کہ روزانہ قیامت کا سامنا کرنا پڑے۔ ایک چمچا میرے سر میں بجے اور دو زجر کے جملے بول کر میں دل کی بھڑاس نکال لوں(دل ہی دل میں)۔ اس بارہ میں والدہ محترمہ سے بہت دفعہ بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن نتیجہ ندارد۔ 
ابھی کل ہی کی بات ہے۔ یکایک شہر کے سکوت کو توڑتے ہوئے ڈھولکی اور سہانے گانوں نے ایک نیا ماحول پیدا کر دیاتھا۔ جگہ جگہ چراغہ کیا گیا۔ دیگوں سے اٹھنے والی مہک…… اللہ ! پیٹ کے ایندھن کو بھڑکا رہی تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی کی شادی ہے۔ اور واقع میں کسی کی شادی ہی تھی۔ 😋
چاند کے چہرے سے پردہ اٹھ رہا تھا کہ ہمارے گھر میں مکالمہ شروع ہوا۔ 
بڑا بھائی: قریب ہمسائیوں میں کسی کی شادی ہو رہی ہے۔ پتا ہے کس کی شادی ہے؟ 
میں: جی حزیفہ کے چھوٹے بھائی عُزیر کی۔ 
بڑا بھائی والدہ سے:ہاں اماں ! بڑے بھائی کی شادی ہوئی نہیں چھوٹے بھائی کی پہلے کر رہے ہیں۔ 
میں (موقعہ مناسب جانتے ہوئے): دیکھیں نا اماں ! بڑے بھائیوں کو کتنا احساس ہوتا ہے چھوٹے بھائیوں کا ۔ میری ہی قسمت پھوٹی تھی…😥
بڑا بھائی: ہاہاہا😅😅۔
(بھائی نے بھی ساتھ تو دیا اور کہا)اماں دیکھ لیں۔ اب تو یہ خود کہنے لگ گیا ہے۔ اب جلد اس کی شادی کروا دیں۔ 😀
اماں جی: (مجھے مخاطب کرتے ہوئے) تمہیں وقت پہ روٹی مل رہی ہے۔ کپڑے استری مل رہے ہیں اور کیا چاہیئے تمہیں؟😱😱😱
دوبارہ ماحول میں سکوت چھا گیا ۔ دوبارہ امیدیں ٹوٹ گئیں۔ دوبارہ روز مرہ کاموں کی تکرار شروع ہو گئی۔

بہن ، بہت ہی پیاری نعمت

بہنیں آنکھوں کی ٹھنڈک ، دل کا سکون ہوتی ہیں۔ بہن ماں کا سایہ ، ماں کی تمثیل ہوتی ہیں۔ بہنیں بڑی اچھی سہیلیاں ہوتی ہیں۔ بہنیں بھائیوں کی جان ہوتی ہیں۔
بہن ، بہت ہی پیاری نعمت 

بہنیں آنکھوں کی ٹھنڈک ، دل کا سکون ہوتی ہیں۔ بہن ماں کا سایہ ، ماں کی تمثیل ہوتی ہیں۔ بہنیں بڑی اچھی سہیلیاں ہوتی ہیں۔ بہنیں بھائیوں کی جان ہوتی ہیں۔ 

بہن ہو تو کپڑے استری کرنے کی کوئی فکر نہیں ، جوتے پالش کرنے کی کوئی فکر نہیں، کھانے کی کوئی فکر نہیں، اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہنیں ہوں تو آپ کی زندگی بڑے سے بڑے بادشاہ سے بھی اچھی ہے۔ بہنیں اشارے سمجھ لیتی ہیں۔ چہرے کے تیور پڑھ لیتی ہیں۔ دل کی بات جان لیتی ہیں۔ بہنیں بھائیوں کے لیے اپنا سب کچھ وار دیتی ہیں۔ 

بہنیں بھائیوں سے کیا چاہتی ہیں؟ 

صرف لاڈ اور پیار چاہتی ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں کا ہمیشہ بھلا چاہتی ہیں ۔ وہ ناراضگی برداشت نہیں کر سکتیں ۔ گھر کے کام وہ اپنے ذمہ لیتی ہیں لیکن باہر کے کام وہ بھائیوں سے ہی کروا سکتی ہیں اس لیے دکان پہ بھیجنے کے لیے وہ بھائیوں سے ضد کرتی ہیں۔ 

شادی کے بعد بہنیں دوسرے گھر چلے جاتی ہیں ۔ لیکن ایک مستقل گھر وہ اپنے بھائیوں کے دل میں بنا جاتی ہیں۔ بھائیوں کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بہنوں کے گھر بس جائیں اور دنیا کی ہر خوشی ان کی جھولی میں آ بسے۔

بہنیں چاہتی ہیں کہ ان کے بھائی ان کی خبر لیتے رہیں۔ ان سے ملنے آتے رہیں ۔ تاکہ ان کے گھر والوں کو بھی پتا چلتا رہے کہ پیچھے خبر رکھنے والا کوئی ہے۔ بہنیں اپنے دل پر پڑے بوجھ ہلکے کرنے کے لیے بھائیوں سے راز داری کی باتیں کرتی ہیں۔ 

بھائی بیمار ہوں تو بہنیں سجدہ گاہیں تر کر دیتی ہیں۔ بھائیوں کو کوئی تکلیف ہو تو بہنوں کے دل چھلنی ہو جاتے ہیں۔ 

بہن کھل کے ہنسی مذاق ، لاڈ سے ناراضگی کا اظہار ، پیارسے لڑائی جھگڑا کر سکتی ہے تو اپنے بھائی سے۔ بھائیوں کا بہنوں سے خون کا رشتہ ہوتا ہے جو اٹوٹ ہے۔

عورت کا اگر کوئی حقیقی حامی ہے تو اس کا باپ، بھائی ، خاوندیا اس کا بیٹا۔اس لیے ان سب کو عورت زاد کا خیال رکھنا چاہیئے۔اپنی بہنوں کی قدر کریں ۔ ان کو گھر میں اتنا پیار دیں کہ دوسرے گھر میں جا کر بھی وہ آپ کو یاد رکھیں۔ اور اپنے دل کا بوجھ اتارنے کے لیے آپ سے بات کر سکے۔ 

جمعہ، 12 مارچ، 2021

پاکستانی لڑکی بمقابلہ انگریزی میم

 پاکستانی لڑکی بمقابلہ انگریزی میم

💓ہمارا پاکستان بہت ہی پیارا ہے۔ اور اس کے باسی اس سے بھی پیارے ہیں۔ نہیں شاید اس سے کم ۔ تھوڑے سے اور کم۔ بہت کم😊۔
پاکستان کا جھنڈہ
💓ہمارا پاکستان بہت ہی پیارا ہے۔ اور اس کے باسی اس سے بھی پیارے ہیں۔ نہیں شاید اس سے کم ۔ تھوڑے سے اور کم۔ بہت کم😊۔ 

صورت سیدھا آنکھوں پہ وار کرتی ہے۔ یعنی بدصورت نظر آئے تو بصارت مفرور و مفقود😑۔ اور کوئی خوبصورت نظر آئے تو نظریں تیز اور آنکھیں موٹی تازی ہوجاتی ہیں😍۔ 

جبکہ سیرت دل پر اثر کرتی ہے💕۔ بداخلاق سے دل بد دل ہو جاتا ہے اور خوش اخلاق پہ فریفتہ۔ 

اس لحاظ سے 4 قسمیں جنم لیتی ہیں: 

1:۔ خوش اخلاق خوبصورت

2:۔ خوش اخلاق بد صورت

3:۔ بد اخلاق خوبصورت 

4:۔ بد اخلاق بد صورت

1:۔ خوش اخلاق خوبصورت

پہلی قسم کی میں ایک مثال بیان کرتا ہوں ۔ 

پانچ سال قبل خاکسار کو قضائے حاجت کے لیے یوکے جانا پڑا۔ (😎قارئین قضاء حاجت سے غلط مطلب نہ لیں ۔ قضاء حاجت کا معنیٰ ہے ضرورت پوری  کرنا۔) مجھے اپنی کتاب میں حوالہ جات کی تصدیق کے لیے یوکے کی مختلف لائبریریوں میں جانا تھا ۔ 

⛅اک حسیں صبح کا نمود ہونے جا رہا تھا۔ 🌞سورج کی کرنوں سے خوبصورت کوئی واقعہ وقوعہ میں آنے والا تھا۔ نہیں اتنا خوبصورت بھی نہیں۔ یا شاید تھا۔ میں کتاب پڑھتے ہوئے لائبریری کے مین دروازے سے نکل رہا تھا کہ ایک اچھی صورت والی انگریزی میم مجھ سے ٹکرا گئی ۔ اور میری کتاب گر گئی۔ شاید میں نے ٹکر جان بوجھ کر ماری تھی۔ 

اک حسیں صبح کا نمود ہونے جا رہا تھا۔ 🌞سورج کی کرنوں سے خوبصورت کوئی واقعہ وقوعہ میں آنے والا تھا۔ نہیں اتنا خوبصورت بھی نہیں۔ یا شاید تھا۔ میں کتاب پڑھتے ہوئے لائبریری کے مین دروازے سے نکل رہا تھا کہ ایک اچھی صورت والی انگریزی میم مجھ سے ٹکرا گئی ۔ اور میری کتاب گر گئی۔ شاید میں نے ٹکر جان بوجھ کر ماری تھی۔
بے دھیانی میں ٹکر
اس حسیں آبشار آنکھوں والی نے معذرت کے انداز میں کہا :

Oh, I apologies, I am really really sorry. 

😔مجھے بہت برا معلوم ہوا۔ 😇نہیں تھوڑا تھوڑا۔😉 شاید بالکل نہیں۔ 😛شاید مجھے اچھا محسوس ہوا ۔😜 بلکہ اچھے سے کچھ زیادہ۔ میں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور اس کی معذرت کو ان الفاظ سے قبول کیا: 

It's Okay, no its good, but it is more than good. You can do it again, or again and again. You can take my number to call me whenever you want to repeat it.

’’یعنی کوئی بات نہیں ۔ بلکہ اچھی بات ہے۔ اچھی سے کچھ زیادہ ۔ آپ اسے دہرا سکتی ہیں۔ بلکہ باربار دوہرا سکتی ہیں۔ آپ میرا نمبر لے لیجئے اور جب ٹکرانے کا دل چاہے مجھے بلا لیجئے گا۔ وہ مسکرائی ۔ میں نے سمجھا میری انگریزی سے متأثر ہو گئی ہے۔ اسی خیال میں میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے کہا ابھی میں نے نمبر بھی نہیں دیا تھا۔ 

4:۔ بد اخلاق بد صورت

😟😞اب میں چوتھی قسم کی بھی ایک مثال بتاتا ہوں۔ 

اگلے روز پاکستان لاہور یونیورسٹی میں اپنے کسی عزیز کے داخلہ کے لیے جانا تھا۔ مذکورہ بالا سے ملتا جلتا واقعہ پیش آ گیا۔ 😳لیکن حالات تھوڑے سے مختلف تھے۔ نہیں بلکہ بہت زیادہ مختلف تھے۔🙀 بہت بہت زیادہ۔ 

اس بار ٹکر لڑکی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ مجھے یقین ہے۔ اور میری فائل میرے ہاتھ سے گر گئی تھی۔ لڑکی کی صورت تھوڑی سی  بری تھی۔ شاید … تھوڑی سی سے کچھ زیادہ ۔ اس لڑکی نے مجھ سے بڑے پیار سے ان الفاظ میں معذرت کی: 

’’ اوئے اَنّے تینو نظر نئیں آندا۔ یا سونڑیں کڑی نوں ویکھ کے ٹکراں ماردیں۔ تینوں شرم نئیں آندی ، تیری ماں پینڑاں کر چے نئیں نے۔ میں ہونڑیں فون کردی آن اپڑیں پرا نوں ۔ تیرے منہ تے دو تِن لائے گانا تے تیری عقل ٹھکانڑیں آ جائے گی…‘‘

’’ یعنی او اندھے، تجھے نظر نہیں آتا ۔ یا پیاری لڑکی کو دیکھ کر ٹکریں مارتے ہو۔ تجھے شرم نہیں آتی۔ تمہاری ماں بہن نہیں۔ میں ابھی فون کرتی ہوں اپنے بھائی کو ۔ وہ ابھی آکر تمہارے منہ پر دو تین لگائے گا تو تمہاری عقل ٹھکانے آ جائے گی…‘‘

😓😖😭😭😭میں انتظار کر رہا تھا کہ میری آنکھ کب کھلتی ہے۔ لیکن اس بار آنکھ بھی نہیں کھلی۔ آخر میں نے ہاتھ جوڑے اور کہا میری پینڑیں معاف کر۔ یعنی میری بہن معاف کرو۔ اور اپنی راہ کو ہو لیا۔

👳دوسری اور تیسری قسم کی میں وضاحت نہیں کروں گا۔ کیوں کہ کسی ایک کے بیان سے میری شریک حیات کا دل ٹوٹ جائے گا۔ یا شاید میرا منہ۔ 

(مزاح نگار: خباب احمد)

جمعرات، 11 مارچ، 2021

دنیا کی تباہی کا سب سے بڑا سبب’’آلودگی‘‘

 

  • قارئین کرام ! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنی تباہی کا سامان اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں اور بڑے زوروشور ، ولولے اور ذوق و شوق سے کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہوئے انجان بن رہے ہیں۔ میں نے جو اوپر ہیڈنگ دی ہےکہ دنیا کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ’’آلودگی‘‘ ہے اس کو میں بدل کر یہ بھی لکھ دوں تو غلط نہ ہوگا کہ آلودگی کا سب سے بڑا سبب’’ انسان ‘‘ ہے۔  خداوند تعالیٰ نے ہر چیز کو بڑے ہی منظم اور جچے تلے اندازے کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ کائنات کی کسی چیز میں کوئی معمولی سا رخنہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ ان سب چیزوں کو اس نے اشرف المخلوقات کے ماتحت کردیا۔ اشرف المخلوقات؟ یہ کیسی مخلوق ہے کہ جس نے بہت ہی پیارے نظام اور ماحول کی تھوڑی سی قدر نہیں کی۔  یہ ماشی سڑک پر چلتے ہوئے عین وسط میں تھوک رہا ہے ، اُف۔ وہ سالک بسکٹ کھا کر ریپر نیچے پھینک رہا ہے۔ فلاں بوتل کو ٹھوکریں مار کر کھیل رہا ہے ۔ فلاں درخت… افسوس درخت کو کاٹ رہا ہے۔ ہسپتال میں پڑے مریضوں کے کان بند کرو ، باہر بس والا ہارن بجا رہا ہے…  سپرے کرو اور مچھروں کو مارو… گھر کے ساتھ نالوں کا پانی جمع ہے جہاں مچھروں کے لشکر ترتیب پا رہے ہیں۔ کچھ ملیریا کی وجہ سے بیمار ہیں اور کچھ سپرے اور مچھر مار دوائیوں کی وجہ سے ۔  وہ دیکھو نیکی کا کام سمجھ کر شاپروں کو آگ لگا رہا ہے ۔ کوئی اسے بتائے فضا کو آلودہ کر رہا ہے ۔  آلودگی کیا چیز ہے؟ ہر کوئی اپنے ذہن اور اپنی سوچ کے مطابق اس کی تعریف کرے گا۔ ایک تعریف میں بیان کرتا ہوں جو میں سمجھتا ہوں تمام باتوں کو اپنے اندر لے لیتی ہے۔

    خالی پلاٹ میں پڑا کوڑا کرکٹ

دنیا کی تباہی کا سب سے بڑا سبب آلودگی

قارئین کرام ! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنی تباہی کا سامان اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں اور بڑے زوروشور ، ولولے اور ذوق و شوق سے کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہوئے انجان بن رہے ہیں۔ میں نے جو اوپر ہیڈنگ دی ہےکہ دنیا کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ’’آلودگی‘‘ ہے اس کو میں بدل کر یہ بھی لکھ دوں تو غلط نہ ہوگا کہ آلودگی کا سب سے بڑا سبب’’ انسان ‘‘ ہے۔
خداوند تعالیٰ نے ہر چیز کو بڑے ہی منظم اور جچے تلے اندازے کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ کائنات کی کسی چیز میں کوئی معمولی سا رخنہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ ان سب چیزوں کو اس نے اشرف المخلوقات کے ماتحت کردیا۔ اشرف المخلوقات؟ یہ کیسی مخلوق ہے کہ جس نے بہت ہی پیارے نظام اور ماحول کی تھوڑی سی قدر نہیں کی۔
یہ ماشی سڑک پر چلتے ہوئے عین وسط میں تھوک رہا ہے ، اُف۔ وہ سالک بسکٹ کھا کر ریپر نیچے پھینک رہا ہے۔ فلاں بوتل کو ٹھوکریں مار کر کھیل رہا ہے ۔ فلاں درخت… افسوس درخت کو کاٹ رہا ہے۔ ہسپتال میں پڑے مریضوں کے کان بند کرو ، باہر بس والا ہارن بجا رہا ہے…
سپرے کرو اور مچھروں کو مارو… گھر کے ساتھ نالوں کا پانی جمع ہے جہاں مچھروں کے لشکر ترتیب پا رہے ہیں۔ کچھ ملیریا کی وجہ سے بیمار ہیں اور کچھ سپرے اور مچھر مار دوائیوں کی وجہ سے ۔
وہ دیکھو نیکی کا کام سمجھ کر شاپروں کو آگ لگا رہا ہے ۔ کوئی اسے بتائے فضا کو آلودہ کر رہا ہے ۔

ہر کوئی اپنے ذہن اور اپنی سوچ کے مطابق اس کی تعریف کرے گا۔ ایک تعریف میں بیان کرتا ہوں جو میں سمجھتا ہوں تمام باتوں کو اپنے اندر لے لیتی ہے۔

آلودگی کیا چیز ہے؟

  • وَضْعُ الشَّیْءَ غَیْرَ مَحَلِّہٖ ظُلْمٌ :۔ یہ عربی محاورہ ہے جس کا ترجمہ ہے کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں رکھنا ظلم ہے ۔ اور میں غلم کی بجائے یہاں آلودگی کا لفظ لگا دیتا ہوں ۔
اب میں استدلال کے طور پر بعض مثالیں پیش کرتا ہوں:

1:۔ ریپرز ، شاپنگ بیگزو دیگر اشیاء روز مرّہ کے استعمال کی چیزیں ہیں ۔ اس لیے اپنی ذات میں یہ آلودہ نہیں ہیں۔ یہ آلودگی کا سبب اس وقت بنتی ہیں جب حضرت انسان اسے سڑک پر یا کھلے ماحول میں یا کسی ایسی ہی جگہ پھینک دیتا ہے۔ جبکہ اس کے پھینکے جانے کی جگہ ڈسٹ بن ہے۔

ریپرز ، شاپنگ بیگزو دیگر اشیاء روز مرّہ کے استعمال کی چیزیں ہیں ۔ اس لیے اپنی ذات میں یہ آلودہ نہیں ہیں۔ یہ آلودگی کا سبب اس وقت بنتی ہیں جب حضرت انسان اسے سڑک پر یا کھلے ماحول میں یا کسی ایسی ہی جگہ پھینک دیتا ہے۔ جبکہ اس کے پھینکے جانے کی جگہ ڈسٹ بن ہے۔
کوڑا کرکٹ ڈسٹ بن میں پھینکیں
2:۔ نالیوں کا پانی سڑکوں پر یا کھلے پلاٹس میں بہہ رہا ہے ۔ جبکہ اس کی اصل جگہ جہاں اسے جانا چاہیئے ندی نالوں کا نظام ہے۔ یعنی انہیں ندی نالوں کے ذریعہ شہر سے باہر لے جانا چاہیئے جہاں اس پانی کو ری سائیکل کیا جا رہا ہو۔
نالیوں کا پانی سڑکوں پر یا کھلے پلاٹس میں بہہ رہا ہے ۔ جبکہ اس کی اصل جگہ جہاں اسے جانا چاہیئے ندی نالوں کا نظام ہے۔ یعنی انہیں ندی نالوں کے ذریعہ شہر سے باہر لے جانا چاہیئے جہاں اس پانی کو ری سائیکل کیا جا رہا ہو۔
پانی کو ری سائیکل کرتے ہوئے

3:۔ ہسپتال کے سامنے نہایت خاموشی کی ضرورت ہے اس لیے ہسپتال کے نزدیک ہارن نہیں بجانے چاہیئں ۔ یادوسرے قسم کا شور اس کے نزدیک نہیں ہونا چاہیئے۔
ہسپتال کے سامنے نہایت خاموشی کی ضرورت ہے اس لیے ہسپتال کے نزدیک ہارن نہیں بجانے چاہیئں ۔ یا دوسرے قسم کا شور اس کے نزدیک نہیں ہونا چاہیئے۔
ڈاکٹر مریضوں کی خاطر چُپ کرواتے ہوئے

4:۔ سڑکوں کے ساتھ والی جگہ کھوکھوں ، گھروں یا کینٹین کے لیے نہیں بلکہ درختوں اور پودوں کے لیے مخصوص ہونی چاہیئے ۔

سڑکوں کے ساتھ والی جگہ کھوکھوں ، گھروں یا کینٹین کے لیے نہیں بلکہ درختوں اور پودوں کے لیے مخصوص ہونی چاہیئے ۔وہاں ان کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ درخت اور پودے گاڑیوں سے جو فضا گندی ہو جاتی ہے اس کو صاف کرتے ہیں۔
سڑکوں کے ساتھ درخت
 وہاں ان کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ درخت اور پودے گاڑیوں سے جو فضا گندی ہو جاتی ہے اس کو صاف کرتے ہیں۔
5:۔ اگر آپ اپنے کمرے کو ترتیب سے نہیں رکھتے تو میں اسے بھی آلودہ کہوں گا۔ کیونکہ آپ نے جن چیزوں کو جہاں ہونا چاہیئے وہاں نہیں رکھا۔
اگر آپ اپنے کمرے کو ترتیب سے نہیں رکھتے تو میں اسے بھی آلودہ کہوں گا۔ کیونکہ آپ نے جن چیزوں کو جہاں ہونا چاہیئے وہاں نہیں رکھا۔
کمرہ کو ترتیب سے نہیں رکھا گیا
پس آلودگی سے محفوظ ہونے کے لیے نہایت ضروری چیز یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کس چیز کو کہاں رکھنا ہے، کہاں پھینکنا ہے، کہاں استعمال کرنا ہے ، کیسے تلف کرنا ہے ، کیسے ری سائیکل کرنا ہے، کہاں ضرورت ہے ، کہاں ضرورت نہیں ، کتنی ضرورت ہے وغیرہ۔ان سب باتوں میں تمام قسم کی آلودگیوں سے بچنے کے جواب آجاتے ہیں۔
عام طور پر آلودگی کی جو اقسام بیان کی جاتی ہیں وہ اس ایک جملہ سے ہی نکلتی ہیں کہ بے محل کسی چیز کو رکھنا ۔ ماحولیاتی آلودگی کا سبب صرف انسان کی جہالت ، اور اس کی لاپرواہی ہے۔ آبادی کم ہو یا زیادہ، ماحول کو صاف ستھرا رکھا جا سکتا ہے۔ گاڑیاں کم ہوں یا زیادہ ماحول کو صاف رکھاجاسکتا ہے۔لیکن اس کے لیے اپنے حلقہ احباب میں اس شعور کو پیدا کرنا ہے کہ جس طرح اپنے گھر میں ترتیب ، تنظیم اور تزیین کی ضرورت ہے اسی طرح ماحول میں بھی یہ چیزیں ضروری ہیں کیونکہ ماحول کا اثر دوسروں کے گھروں پر ہی نہیں آپ کے گھر پر بھی پڑے گا۔
اس میں کسی کو تکلیف نہیں ہوگی کہ وہ شاپنگ بیگ یا کسی قسم کا ریپر نیچے کھلے بازار ، سڑک یا پلاٹ میں پھینکنے کی بجائے اسے اپنے پاس رکھے اور جہاں ڈسٹ بن نظر آئے وہاں پھینک دے۔
پھر اس سے بھی شان میں کمی نہیں آجاتی کہ اگر راستے میں ریپرز پڑے نظر آئیں تو انہیں اٹھا کر قریب کے ڈسٹ بن میں پھینک دیں ۔ آپ ابتداء کریں ، میں اپنی جگہ ابتداء کرتا ہوں ، پھر دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
اس میں کسی کو تکلیف نہیں ہوگی کہ وہ شاپنگ بیگ یا کسی قسم کا ریپر نیچے کھلے بازار ، سڑک یا پلاٹ میں پھینکنے کی بجائے اسے اپنے پاس رکھے اور جہاں ڈسٹ بن نظر آئے وہاں پھینک دے۔ پھر اس سے بھی شان میں کمی نہیں آجاتی کہ اگر راستے میں ریپرز پڑے نظر آئیں تو انہیں اٹھا کر قریب کے ڈسٹ بن میں پھینک دیں ۔ آپ ابتداء کریں ، میں اپنی جگہ ابتداء کرتا ہوں ، پھر دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
بچے بڑے مل کر پارک صاف کر رہے ہیں
آپ شاہ رخ خان، سنجے دت یا سلمان خان بننے کی بجائے اس بات کی کیوں کوشش نہیں کرتے کہ حقیقی ہیرو بن جائیں ۔ اور حقیقی دنیا میں ایک ، نہیں دسوں، نہیں سینکڑوں ، نہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی جانوں کو بچا لیں؟ آپ پہلا قدم اٹھائیں ۔ لوگ آپ کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے ۔ بلکہ وہ تو خود اس آلودگی سے تنگ ہیں اور اپنے ماحول کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن جھوٹی عزت اور جھوٹی نفاست پسندی اس کے پہلا قدم اٹھانے میں آڑے آ جاتی ہے۔ اگر آپ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے تو آپ حقیقی ہیرو بن کر ابھریں گے۔
 ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہےلیکن گاڑیوں کے سلنسر کی آواز ابھی بھی سیٹ نہیں کی گئی۔ اگر کوشش کی جائے تو شور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ہمارا کام یہ ہے کہ جو ہمارے دائرہ کارمیں ہے ہم وہ کریں پھر ہم حکومت سے درخواست کریں کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے وہ بھی ہماری مدد کرے۔ حکومت بڑی سطح پر کام کرے اور ہم اپنے اپنے دائرہ میں کام کریں۔  

کاروبار میں کامیابی حاصل کریں

 

کاروبار میں کامیابی حاصل کریں۔1:.سب سے پہلی شرط (سچائی اور ایمان داری)2:۔ اپنے کام کو مناسب وقت دینا:۔  3:۔ محنت اور مشقت کی عادت:۔  4:۔ نرم اور پاک زبان کا استعمال :۔  5:۔ شرائط اور قواعد و ضوابط کی تعیین و تخصیص:۔  6:۔ رعایت اور احسان کا سلوک :۔  7:۔ وسعتِ حوصلہ :۔  8:۔ رأس المال کی حفاظت اور اس میں اضافہ کرتے رہنا:۔  9:۔ ریکارڈ و ڈائری :۔  10:۔ نفع کی شرح :۔  11:۔ کاروبار کے لیے کن چیزوں کا انتخاب کریں؟  12:۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔  13:۔ سب سے اہم شرط:۔
سونے کی اینٹیں اور ڈالر

کاروبار میں کامیابی حاصل کریں۔

ہر شخص کاروبار میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے اور ملین بلکہ بلینز کما سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیےکچھ شرائط اور کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن پر آپ کو عمل کرنا ہوگا۔ خاکسار وہ شرائط اور قواعد و ضوابط بیان کیے دیتا ہے ۔

1:.سب سے پہلی شرط (سچائی اور ایمان داری)

آپ کوئی بھی کاروبار کریں ۔ اگر آپ کاروبار سے نفع حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دیرپا نفع حاصل کرتے چلے جانا چاہتے ہیں تو آپ کو کاروبار کی سب سے پہلی شرط یعنی سچائی اور ایمانداری کو اپنانا ہوگا ۔ ایمانداری سے اللہ کی رضا تو حاصل ہوگی ہی ، لوگوں کا اعتماد بھی آپ پر بحال ہوگا۔ اور اعتماد ہی پہلی کڑی ہے کہ اگر یہ ٹوٹ جائے تو آپ اپنے گاہکوں کو کاروبار کی زنجیر سے باندھ نہیں سکیں گے۔ مثلاً اگر آپ کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں ۔ گاہک کو کپڑے کی کیفیت کے بارہ میں دھوکا دے کر زیادہ پیسے بٹور لیتے ہیں تو اس گاہک کو جب حقیقت معلوم ہوگی تو وہ نہ صرف یہ کہ کبھی آپ سے دوبارہ سودہ نہیں کرے گا بلکہ اپنے دوستوں اور تعلق داروں سے بھی یہ کہے گا کہ یہ لٹیرا اور بے ایمان ہے یا اس کا مال اچھا نہیں ہوتا اور قیمت بھی زیادہ لگاتا ہے ۔ اس سے آپ کی دکان کی رینکنگ کم ہوتی رہے گی ۔ شاید وقتی طور پر آپ زیادہ نفع بھی کمالیں ۔ لیکن کچھ عرصہ میں ہی آپ کو اپنے کئے پر پچھتاوا ہوگا ۔ خاص طور پر جب کوئی دوسرا ایماندار شخص آپ کی جگہ لے لے گا۔

پس جب بھی آپ کوئی چیز بیچیں تو سچائی اور ایمانداری کے ساتھ بیچیں تاکہ آپ دیاندار اور سچے تاجر مشہور ہوں۔

یہ شرط نوکری کرنے والوں کے لیے بھی بہت ضروری ہے ۔کیونکہ یہ چیز اگر آپ میں پیدا ہو جائے تو کامیابی خود آپ کو ڈھونڈ کر آپ کے قدم چومے گی ۔

2:۔ اپنے کام کو مناسب وقت دینا:۔

آپ جو بھی کاروبار یا نوکری کرتے ہیں اسے بھرپور وقت دیں، وقت کی پابندی کریں۔ بے جا اور بلاوجہ چھٹیاں نہ کریں۔ کیونکہ اگر آپ ایمانداری سے کام تو کرتے ہیں لیکن وقت بہت کم دیتے ہیں یا دیتے ہیں نہیں تو اس سے آپ کی ایمانداری کا اثر بھی ضائع ہو جائے گا۔ مثلاً اگر آپ طبیب ہیں اور آپ کا ایسی جگہ کلینک ہے جہاں ایک اور طبیب بھی اپنا کلینک چلا رہا ہے ۔ وہ  طبیب بھی آپ کی طرح مہارت رکھتا ہے ۔ فرق اس بات کا ہے کہ آپ کلینک کو زیادہ سے زیادہ وقت دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ تھوڑی دیر کے لیے کلینک کھولتا ہے ۔ اس سے آپ دیکھیں گے کہ آپ کا کلینک دوسرے ڈاکٹر کے کلینک سے زیادہ کامیاب اور زیادہ نفع بخش چل رہا ہے ۔

3:۔ محنت اور مشقت کی عادت:۔

تیسری شرط کاروبار کی محنت اور مشقت ہے ۔ اگر آپ ایمانداری سے پیش آتے ہیں ۔ وقت بھی دیتے ہیں۔ لیکن محنت اور مشقت کی عادت نہیں تو اس سےبھی آپ کے کاروبار میں فرق پڑے گا۔ مثلاً آپ مزدور ہیں ۔ آپ وقت کی پابندی بھی کرتے ہیں ۔ ایمانداری بھی ہیں ۔ لیکن آپ کو مشقت کی عادت نہیں ۔ اس سے آپ کے کام میں سستی آ جائے گی اور آپ اپنے کام کو صحیح طور پر انجام نہ دے سکنے کے باعث کام سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ یا اگر آپ کپڑے کا ہی کاروبار کرتے ہیں ۔ گاہک آپ سے کپڑوں کے تھان کھول کر رکھنے کو کہتا ہے ۔ آپ کاہلی اور سستی کا شکار ہیں اور محنت کی عادت نہیں تو تین چار تھان کھول کر آپ کہیں گے آپ نے جو لینا ہے وہ بتائیں ۔ اگر نہیں لینا تو وقت ضائع نہ کریں۔ اس سے آپ خود اپنے رزق پر لات مار رہے ہونگے ۔ کیونکہ گاہک اگر صرف دیکھ ہی رہا ہے تو اسے دکھائیں ممکن ہے کہ وہ اپنے مناسب وقت میں ان میں سے کوئی ایک خرید لے اور دیکھتے وقت اس کے پاس رقم نہ کافی ہو۔

4:۔ نرم اور پاک زبان کا استعمال :۔

چوتھی لیکن بہت ہی ضروری شرط یہ ہےکہ آپ نرم اور پاک زبان کا استعمال کریں ۔ گاہک سے بڑے پیار سے بات کریں ۔ اگر وہ سخت کلامی کرتا بھی ہے تو برداشت کریں ۔ اگر آپ کو کوئی بات بری بھی معلوم ہوتی ہے تو اظہار نہ کریں۔ مثلاً آپ تاجر ہیں خریدار آپ کی چیز کی قیمت بالکل نامناسب لگاتا ہے تو آپ اسے بڑے پیارسے سمجھا دیں کہ اس کی قیمت یہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی مناسب ترین قیمت یہی ہے جو میں نے آپ کو بتا دی ہے ۔

5:۔ شرائط اور قواعد و ضوابط کی تعیین و تخصیص:۔

آپ جو بھی کاروبار کریں ۔ اگر آپ کے قواعد اور شرائط معین اور مخصوص ہونے چاہئیں ۔ اور ان سے آپ کے گاہک ہو قبل از خریداری خبر ہونی چاہیئے ۔ اس سے مختلف قسم کی پیچیدگیوں اور فسادات سے آپ محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ جہاں فساد اور لڑائی جھگڑا جنم لے لے وہاں سے گاہک متنفر ہو جاتے ہیں۔

مثلاً آپ جوتوں کا کاروبار کرتےہیں تو جوتوں کی قیمت مخصوص کر دیں نیز اپنے قواعد سے اپنے گاہک کو آگاہ کردیں جیسے:

1:۔ خریداری کے بعد چیز واپس نہیں ہوگی /دو دن تک واپس ہو سکتی ہے وغیرہ ۔

2:۔ اگر گارنٹی ہے تو کن کن باتوں کی گارنٹی ہے ۔

یا مثلاً آپ مزدور ہیں تو کام کی حامی بھرنے سے پہلے یہ باتیں طے کر لیں :

1:۔ میں اتنی مشقت کر سکتا ہوں ۔

2:۔ اس وقت کام میں شروع کروں گا۔

3:۔ دوپہر کے کھانا کے لیے اس وقت جاؤں گا اوراس وقت میری واپسی ہوگی۔

4:۔ اس وقت میری چائے کی بریک ہوگی۔

5:۔ میں یہ یہ کام مزدوری کے دوران کر سکتا ہوں ۔ یہ کام مجھے نہیں آتے اس لیے ان کاموں میں مشکل ہو سکتی ہے ۔

کیونکہ بعض اوقات مزدوری پر لگانے والا دو مزدوروں کے برابر محنت بھی کسی سے کروانا چاہتا ہے تو مزدور کو پہلے بتا دینا چاہیئے کہ میں اتنا کام محنت ، مشقت اور مزدور ی کے مطابق کر سکتا ہوں۔ اور اس سے زائد کام میری استطاعت سے باہر ہے ۔

6:۔ رعایت اور احسان کا سلوک :۔

آپ اپنے ڈیلر ، گاہک یا جس کے لیے کام کر رہے ہیں سے اپنا ہاتھ ہمیشہ اوپر رکھیں یعنی اس پر احسان کریں۔ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے ۔

مثلاً آپ آفس میں کام کرتے ہیں تو کچھ اضافی وقت دیں۔

مزدور ہیں تو اضافی کام کر دیں ۔ یاکچھ مزید وقت دے دیں۔

تاجر ہیں تو اپنی اشیا پر آفر رکھ دیں یعنی تین چیزیں خریدنے پر قیمت میں کچھ کمی رکھیں ۔ لیکن اس کی وضاحت اور تعیین پہلے سے اپنی پالیسی میں کر دیں۔

غریبوں اور مسافروں کے لیے اپنی پالیسی میں الگ آفرز رکھیں۔ مثلاً آپ ہوٹل مینجر ہیں ۔ اگر کوئی غریب آپ کے ہوٹل سے کھانا کھانے آئے تو اس کے لیے نفع کی شرط میں کمی کر دیں۔ وغیرہ وغیرہ

7:۔ وسعتِ حوصلہ :۔

اگر آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا حوصلہ وسیع ہونا ضروری ہے ۔ مثلاً آپ کو کاروبار میں نقصان بھی ہو سکتا ہے اس لیے نقصان برداشت کرنے کی قوت آپ میں ہونی چاہیئے ۔ کیونکہ کاروبار میں نفع اور نقصان دونوں ہو سکتے ہیں ۔ اگر نقصشان اٹھانے پر ہمت اور حوصلہ ہار جائیں گے تو کاروبار میں ناکامی ہوگی۔

8:۔ رأس المال کی حفاظت اور اس میں اضافہ کرتے رہنا:۔

کاروبار میں یہ اصول بھی ضروری ہے کہ آپ اس رقم کو جس سے کہ آپ نے اپنے کاروبار کا سامان خریدا ہے محفوظ رکھیں یعنی اگر آپ نے 50,000کا مال اپنے کاروبار کے لیے صرف کیا تو اس مال میں سے نفع کی رقم استعمال کریں نہ کہ رأس المال کو بھی استعمال میں لانا شروع کردیں ۔ بلکہ آپ اپنے نفع میں سے بھی ایک رقم معینن ک رلیں جو رأس المال کا حصہ بنتی رہے اور اس سے آپ کے کاروبار میں وسعت آتی رہے ۔

9:۔ ریکارڈ و ڈائری :۔

آپ جو بھی کاروبار کرتے ہیں ۔ اس کا مکمل تفصیلی ریکارڈ ایک رجسٹر پر درج ہونا چاہیئے ۔ مثلاً آپ نے کیا چیز ، کتنے میں، کہاں سے خریدی ؟ کتنا نفع اس پر حاصل کیا ۔ رأس المال کتنا ہے ؟ نفع کتنا ہوا؟ نفع میں سے کتنی رقم رأس المال کے لیے معین کی؟ اسی طرح گاہکوں کی تفصیل آپ کے پاس ہونی چاہیئے۔

10:۔ نفع کی شرح :۔

نفع کی شرح نہایت مناسب رکھیں ۔ اگر آپ ایک چیز 100روپے کلو خرید رہے ہیں تو زیادہ سے زیادہ وہ چیز آپ 140روپے میں بیچیں ۔ لیکن جتنا نفع آپ کم لیں گے اتنا مناسب ہے ۔ کیونکہ اتنی ہی آپ کی سیل زیادہ ہوگی۔ گاہکوں کی تعداد بڑھائیں نہ کہ اشیاء پر نفع کی رقم ۔

11:۔ کاروبار کے لیے کن چیزوں کا انتخاب کریں؟

اگر آپ کاروبار کرتے ہیں تو اس علاقہ کے گاہکوں کو جانچیں اور ان کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر اشیاء خریدنے کا پلین بنائیں ۔ اسی طرح قیمت بھی آبادی کی اکثریت کو مدنظر رکھ کر طے کریں۔ آپ اشیا ء کم قیمت میں اور معیاری خرید کر آگے بیچیں کیونکہ اکثر گاہکوں کی فطرت ہے کہ وہ کم قیمت میں چاہتے ہیں کہ انہیں اچھی سے اچھی مل جائے ۔

12:۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔

کاروبار ہو یا نوکری ، اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ایک بہت ضروری شرط اپنی صحت کا خیال رکھنا ہے ۔ اگر آپ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے تو اوپر والی تمام شرائط کو پورا کرنے میں مشکل ہوگی۔

13:۔ سب سے اہم شرط:۔

سب سے اہم شرط یہ ہے کہ خواہ آپ کاروباری ہوں یا نوکری کرنے والے ، اپنی رقم میں سے معین حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے رہیں ۔ میرے قارئیں اس بات سے واقف ہی ہیں کہ ہمارا رازق دراصل تو خدا ہی ہے ۔ ہمارا کام تدبیر کرنا ہے رزق تو وہی دیتا ہے۔

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر جو بھی کام کریں گے رزاق خدا نے چاہا تو ضرور برکت پڑے گی ۔

بدھ، 3 مارچ، 2021

ترجیحات کی اقسام اور انہیں ترتیب دینا

ترجیحات کی اقسام اور انہیں ترتیب دینا تمہید آج کے اس کالم میں ہم ترجیحات یعنی Priority  سے متعلق با ت کریں گے۔ کیونکہ اس کا تعلق ہر فرد سے ہے اور ہر فرد کی ترجیحات ہوتی ہیں گو مختلف۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی ترجیحات کا فیصلہ عین وقت پر ہی کرنا پڑتا ہے اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ پہلے سے ہی ان کی ترجیحات کو ترتیب دے لینا چاہیئے۔   المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو جانچتے نہیں اور ٹائم ٹیبل تشکیل نہیں دیتے۔اور اگر تشکیل دیتے ہیں تو بنیادی باتوں کو مد نظر نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنا بہت سا وقت جو کے اللہ تعالیٰ کی امانت ہے ضائع کر دیتے ہیں۔  ترجیحات کی اقسام:۔  ترجیحات دو قسم کی ہیں۔  1:۔ پہلے سے معلوم باتوں کی ترجیحات  2:۔ وقت پر جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت  پہلے میں ’’ پہلے سے معلوم باتوں کی ترجیحات‘‘ بیان کروں گا۔  1:۔ پہلے سے معلوم باتوں کی ترجیحات  تمام تر ترجیحات حقوق سے جنم لیتی ہیں۔ ہمارے خالق و مالک کا ایک نام ’’ الحق‘‘ ہے۔ تمام تر حقوق اسی کے ہیں اور اسی سے حقوق جنم لیتے ہیں۔ ہماری تمام تر ترجیحات کا مُرَجَّح وہ ذات باری تعالیٰ ہی ہے۔  پس مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ اصل (بنیاد) تمام تر ترجیحات کی یہی ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک ذات حق کو ہر بات پر ترجیح دیں ۔ اور اسی کو تمام تر ترجیحات کا پیمانہ ٹھہرائیں۔ اس نے اپنے کلام میں تمام تر ترجیحات کو ترتیب دیا ہے ۔ میں ان کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔  پہلا حق 1:۔ سب سے پہلا حق ہمارے خالق و مالک ذات برحق کا ہے جس سے تمام حقوق قائم ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلی ترجیح کا حقدار وہی ذات ہے ۔ اس لیے جب اس کے مقابلہ میں کوئی دوسرا آپشن آئے گاتو میں اسی ذات برحق کو ترجیح دوں گا۔  دوسرا حق 2:۔ دوسرا حق اس کا ہے جس نے اس خالق و مالک ذات برحق کی خبر دی اور چہرہ دکھایا۔یعنی وہ انسان کامل۔  تیسرا حق 3:۔ تیسرا حق اقرباء کا ہے ۔ جس میں والدین سے لے کر دوسرے رشتے دار شامل ہیں۔ اس لیے تیسرے نمبر پر ترجیح اقرباء کو دینی چاہیئے۔  چوتھا حق 4:۔ چوتھا حق ترجیح کا تمام خلق اللہ کا ہے۔ اس میں انسانیت کے علاوہ دیگر حیوانات ، نباتات، حیوانات شامل ہیں۔  پانچواں حق 5:۔ پانچواں حق ترجیح کا اپنے نفس کا ہے۔  جب آپ اپنا ٹائم ٹیبل تشکیل دیں تو ان پانچ باتوں کوضرور مدنظر رکھیں۔  1:۔روزانہ آپ فرائض عبادات اور دلی خوشی سے عبادات کے لیے وقت صرف کریں ۔ آپ یہ کام کاروبارکے دوران بھی ذکر کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔   2:۔انسان کامل کے ذکر کے لیے وقت صرف کریں۔اس کے لیے بھی کوئی الگ وقت کی ضرورت نہیں اپنے کاروبار یا نوکری کے دوران بھی اس کام کو آپ کر سکتے ہیں۔ ہاں فارغ اوقات میں حالات زندگی اور سیرت وغیرہ کے بارہ میں ضرور مطالعہ کریں۔  3:۔اقرباء اور خصوصی طور پر والدین ، بہن بھائیوں ، بیوی بچوں کے لیے وقت صرف کریں۔  4:۔ تمام خلق اللہ کے لیے وقت صرف کریں۔ یعنی انسانیت ، دیگر حیوانات، نباتات، جمادات وغیرہ کے لیے ۔  5:۔اپنے آپ کو وقت دیں۔  خلاصہ کلام یہ کہ تمام حقوق ایک ہی حق سے یعنی ’’الحق‘‘ سے پھوٹتے ہیں ۔ اور مرجح ہر قسم کی ترجیحات کا صرف ایک ہی ہے ۔ جو حقوق اوپر بیان کیے گئے ہیں اگر ہم ان کو پورا کرتے ہیں تو دراصل ہم ’’الحق‘‘ کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔صرف ہمیں نیت بھی ساتھ یہی باندھ لینی چاہیئے کہ ہم اس کو ترجیح اس کی خاطر دے رہے ہیں اور اس کے حقوق اسی ذات برحق کی وجہ سے ادا کر رہے ہیں۔  آپ سوچیں گے کہ جو نوکری یا کاروبار آپ کرتے ہیں اس کا ذکر یہاں کیوں نہیں کیا؟ تو یاد رہے کہ کاروبار یا نوکری انہیں پانچ باتوں میں سے کسی نہ کسی کے لیے آپ کرتے ہیں ۔ یا تو خالق و مالک کی پہچان کروانے کے لیےاور انسان کامل کے پیغام کو پہنچانے کے لیے ، یا اقرباء کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے ، یا خلق اللہ کے لیے ، یا اپنی ذات کے لیے۔ اس لیے اپنے شیڈول میں ایک وافر حصہ اس کے لیے مقرر کر رکھیں۔ اوراپنے کاروبار یا نوکری کی ڈیوٹی کو پوری  محنت اور ایمانداری کے ساتھ نبھائیں۔  2:۔ وقت پر جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت  یہ پہلی قسم کی ہی تشریح ہے۔آپ کو بنیاد کو مضبوطی سے پکڑے رہنا ہے ۔ بنیاد یہی ہے کہ ہر بات پر ذات برحق کو ترجیح دینی ہے ۔  میں ایک عمومی مثال بیان کرتا ہوں۔ اگر کوئی آپ کو رشوت دیتا ہے تو آپ کے پاس دو آپشنز آ جائیں گے ۔  1:۔ آپ رشوت لے لیں۔  2:۔ آپ رشوت نہ لیں ۔  آپ ان دونوں میں سے کس بات کو چنیں گے؟ ذات برحق یہی چاہتی ہے کہ آپ رشوت نہ لیں ۔ اس لیے آپ دوسرا آپشن چنیں گے۔  لیکن بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ آپ کو تمام آپشنز کی اجازت ہوتی ہے لیکن آپ کو بہترین کو چننا ہوتا ہے ۔ اب میں مزید اس پر بات کرتا ہوں۔جس قسم کو میں بیان کر رہا ہوں اس کی آگے مزید اقسام ہیں:  1:۔ ذاتی ترجیحات  2:۔ معاشرتی ترجیحات  اب میں ان دونوں اقسام کی مختصراً وضاحت کر دیتا ہوں۔  ذاتی ترجیحات:۔ میں مثال بیان کر کے اس کی وضاحت کرتا ہوں۔  آپ کے سامنے کھانے کی دو ڈشز رکھی جاتی ہیں ۔ ایک میں بریانی ہے اور دوسری میں قورمہ  ہے۔ آپ ان دونوں ڈشز میں سے کون سی ڈش پسند کریں گے ؟ اس میں ہر کسی کی ذاتی پسند کا تعلق ہے ۔ اس لیے آپ دونوں میں سے ایک کو ترجیح دیں گے اور دوسری چھوڑ دیں گے۔  اس میں ہر وہ چیز آ جاتی ہے جس کا آپ کی ذات کے ساتھ تعلق  ہو اور انتخاب کے لیے مختلف آپشنز موجود ہوں۔ اور انتخاب کا نفع نقصات آپ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔  معاشرتی ترجیحات:۔ اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں۔  آپ اپنے شہر میں امداد حاصل کر کے مثلاً ایک ہسپتال تعمیر کروانا چاہتے ہیں۔ اسی دوران آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی یہ کام پہلے سے ہی کر رہا ہے ۔ اور وہ کافی امداد اکٹھی کر چکا ہے۔ اب آپ کے پاس دو آپشنز ہیں ۔ یا تو آپ الگ سے اپنی تحریک کا آغاز کر دیں یا اسی تحریک کی جو پہلے سے چل رہی ہے معاونت کریں۔ اگر آپ پہلی بات کو منتخب کرتے ہیں تو اس میں آپ کی ذات پہلے شامل ہو جاتی ہے۔ اور اگر دوسرے پر عمل کرتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے معاشرہ کو ترجیح دی ۔ اگر آپ اپنی الگ سے تحریک چلائیں گے تو دوسری تحریک میں آپ رکاوٹ ڈال رہے ہوں گے۔  پس اس قسم کی ترجیحات میں دوسرے کا نقصان ہو سکتا ہے ۔  میں ایک اور مثال دیتا ہوں ۔  فرض کریں آپ ایک استاد ہیں ۔ طلباء کے پیپر نزدیک ہیں ۔ آپ کا نصاب ابھی کافی پڑا ہے جو امتحانات سے قبل مکمل ہونا بہت ہی مشکل ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کون سی چیز اہم ہے اور کون سی نہیں ۔ آپ کی رائے میں آپ کو نصاب مکمل پڑھانا چاہیئے ۔ لیکن دوسرا آپشن یہ ہے کہ طلباء کی بھلائی کے لیے اور وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ صرف اہم چیزیں پڑھا دیں اور امتحانات کے نزدیک آنے کی وجہ سے امتحانات کی تیاری کروائیں ۔ آپ ان دونوں باتوں میں سے کس کا انتخاب کریں گے۔ اگر آپ پہلی بات چنتے ہیں تو اس سے طلباء کو نقصان ہونے کا خدشہ ہے ۔  اگر یہی آپشنز میرے پاس ہوں تو میں دوسری بات کو ترجیح دوں گا۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟  1:۔ اگر میں آخری دنوں میں بھی بقیہ نصاب مکمل کرواتا رہوں گا تو طلباء کی توجہ اہم چیزوں سے ہٹ جائے گی اور وہ تیاری کے لحاظ سے اہم چیزوں پر توجہ کرنے کی بجائے کہیں اور بھٹک سکتے ہیں ۔  2:۔  نیز ان کو کلاس میں سوالات کرنے کا وقت نہیں ملے گا کیونکہ مجھے تو نصاب مکمل کروانا ہے۔  3:۔ نصاب مکمل کرونا پورے سا ل کا ہدف تھا ۔ اب امتحانات کی تیاری کا وقت ہے۔ یہ میری ذمہ داری تھی کہ کم از کم ایک ماہ قبل نصاب مکمل کروا کر دہرائی شروع کرواتا۔  4:۔ اہم چیزیں نصاب سے یاد کرواؤں گا تو طلباء کی تیاری اچھی ہوگی اور وہ امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں گے ۔ اور جو اہم حصہ نہیں تھا وہ بعد میں بھی طلباء پڑھ سکتے ہیں ۔  اختتام مضمون :۔ ہمیشہ اس بات کو ترجیح دیں جس سے خدا راضی ہو ۔اور ہمیشہ بہترین آپشن کو چنیں۔اور یاد رکھیں کہ بنیاد تمام تر ترجیحات کا مرجح وہ ذات برحق ہی ہے جس نے تمام چیزوں کے حقوق قائم کیے ہیں۔  (کالم نگار: اردو)

ترجیحات کی اقسام اور انہیں ترتیب دینا

تمہید

آج کے اس کالم میں ہم ترجیحات یعنی Priority  سے متعلق با ت کریں گے۔ کیونکہ اس کا تعلق ہر فرد سے ہے اور ہر فرد کی ترجیحات ہوتی ہیں گو مختلف۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی ترجیحات کا فیصلہ عین وقت پر ہی کرنا پڑتا ہے اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ پہلے سے ہی ان کی ترجیحات کو ترتیب دے لینا چاہیئے۔

 المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو جانچتے نہیں اور ٹائم ٹیبل تشکیل نہیں دیتے۔اور اگر تشکیل دیتے ہیں تو بنیادی باتوں کو مد نظر نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنا بہت سا وقت جو کے اللہ تعالیٰ کی امانت ہے ضائع کر دیتے ہیں۔

ترجیحات کی اقسام:۔ 

ترجیحات دو قسم کی ہیں۔

1:۔ پہلے سے معلوم باتوں کی ترجیحات

2:۔ وقت پر جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت

پہلے میں ’’ پہلے سے معلوم باتوں کی ترجیحات‘‘ بیان کروں گا۔

1:۔ پہلے سے معلوم باتوں کی ترجیحات

تمام تر ترجیحات حقوق سے جنم لیتی ہیں۔ ہمارے خالق و مالک کا ایک نام ’’ الحق‘‘ ہے۔ تمام تر حقوق اسی کے ہیں اور اسی سے حقوق جنم لیتے ہیں۔ ہماری تمام تر ترجیحات کا مُرَجَّح وہ ذات باری تعالیٰ ہی ہے۔

پس مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ اصل (بنیاد) تمام تر ترجیحات کی یہی ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک ذات حق کو ہر بات پر ترجیح دیں ۔ اور اسی کو تمام تر ترجیحات کا پیمانہ ٹھہرائیں۔ اس نے اپنے کلام میں تمام تر ترجیحات کو ترتیب دیا ہے ۔ میں ان کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

پہلا حق

1:۔ سب سے پہلا حق ہمارے خالق و مالک ذات برحق کا ہے جس سے تمام حقوق قائم ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلی ترجیح کا حقدار وہی ذات ہے ۔ اس لیے جب اس کے مقابلہ میں کوئی دوسرا آپشن آئے گاتو میں اسی ذات برحق کو ترجیح دوں گا۔

دوسرا حق

2:۔ دوسرا حق اس کا ہے جس نے اس خالق و مالک ذات برحق کی خبر دی اور چہرہ دکھایا۔یعنی وہ انسان کامل۔

تیسرا حق

3:۔ تیسرا حق اقرباء کا ہے ۔ جس میں والدین سے لے کر دوسرے رشتے دار شامل ہیں۔ اس لیے تیسرے نمبر پر ترجیح اقرباء کو دینی چاہیئے۔

چوتھا حق

4:۔ چوتھا حق ترجیح کا تمام خلق اللہ کا ہے۔ اس میں انسانیت کے علاوہ دیگر حیوانات ، نباتات، حیوانات شامل ہیں۔

پانچواں حق

5:۔ پانچواں حق ترجیح کا اپنے نفس کا ہے۔

جب آپ اپنا ٹائم ٹیبل تشکیل دیں تو ان پانچ باتوں کوضرور مدنظر رکھیں۔

1:۔روزانہ آپ فرائض عبادات اور دلی خوشی سے عبادات کے لیے وقت صرف کریں ۔ آپ یہ کام کاروبارکے دوران بھی ذکر کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔ 

2:۔انسان کامل کے ذکر کے لیے وقت صرف کریں۔اس کے لیے بھی کوئی الگ وقت کی ضرورت نہیں اپنے کاروبار یا نوکری کے دوران بھی اس کام کو آپ کر سکتے ہیں۔ ہاں فارغ اوقات میں حالات زندگی اور سیرت وغیرہ کے بارہ میں ضرور مطالعہ کریں۔

3:۔اقرباء اور خصوصی طور پر والدین ، بہن بھائیوں ، بیوی بچوں کے لیے وقت صرف کریں۔

4:۔ تمام خلق اللہ کے لیے وقت صرف کریں۔ یعنی انسانیت ، دیگر حیوانات، نباتات، جمادات وغیرہ کے لیے ۔

5:۔اپنے آپ کو وقت دیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ تمام حقوق ایک ہی حق سے یعنی ’’الحق‘‘ سے پھوٹتے ہیں ۔ اور مرجح ہر قسم کی ترجیحات کا صرف ایک ہی ہے ۔ جو حقوق اوپر بیان کیے گئے ہیں اگر ہم ان کو پورا کرتے ہیں تو دراصل ہم ’’الحق‘‘ کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔صرف ہمیں نیت بھی ساتھ یہی باندھ لینی چاہیئے کہ ہم اس کو ترجیح اس کی خاطر دے رہے ہیں اور اس کے حقوق اسی ذات برحق کی وجہ سے ادا کر رہے ہیں۔

آپ سوچیں گے کہ جو نوکری یا کاروبار آپ کرتے ہیں اس کا ذکر یہاں کیوں نہیں کیا؟ تو یاد رہے کہ کاروبار یا نوکری انہیں پانچ باتوں میں سے کسی نہ کسی کے لیے آپ کرتے ہیں ۔ یا تو خالق و مالک کی پہچان کروانے کے لیےاور انسان کامل کے پیغام کو پہنچانے کے لیے ، یا اقرباء کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے ، یا خلق اللہ کے لیے ، یا اپنی ذات کے لیے۔ اس لیے اپنے شیڈول میں ایک وافر حصہ اس کے لیے مقرر کر رکھیں۔ اوراپنے کاروبار یا نوکری کی ڈیوٹی کو پوری  محنت اور ایمانداری کے ساتھ نبھائیں۔

2:۔ وقت پر جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت

یہ پہلی قسم کی ہی تشریح ہے۔آپ کو بنیاد کو مضبوطی سے پکڑے رہنا ہے ۔ بنیاد یہی ہے کہ ہر بات پر ذات برحق کو ترجیح دینی ہے ۔

میں ایک عمومی مثال بیان کرتا ہوں۔ اگر کوئی آپ کو رشوت دیتا ہے تو آپ کے پاس دو آپشنز آ جائیں گے ۔

1:۔ آپ رشوت لے لیں۔

2:۔ آپ رشوت نہ لیں ۔

آپ ان دونوں میں سے کس بات کو چنیں گے؟ ذات برحق یہی چاہتی ہے کہ آپ رشوت نہ لیں ۔ اس لیے آپ دوسرا آپشن چنیں گے۔

لیکن بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ آپ کو تمام آپشنز کی اجازت ہوتی ہے لیکن آپ کو بہترین کو چننا ہوتا ہے ۔ اب میں مزید اس پر بات کرتا ہوں۔جس قسم کو میں بیان کر رہا ہوں اس کی آگے مزید اقسام ہیں:

1:۔ ذاتی ترجیحات

2:۔ معاشرتی ترجیحات

اب میں ان دونوں اقسام کی مختصراً وضاحت کر دیتا ہوں۔

ذاتی ترجیحات:۔

میں مثال بیان کر کے اس کی وضاحت کرتا ہوں۔

آپ کے سامنے کھانے کی دو ڈشز رکھی جاتی ہیں ۔ ایک میں بریانی ہے اور دوسری میں قورمہ  ہے۔ آپ ان دونوں ڈشز میں سے کون سی ڈش پسند کریں گے ؟ اس میں ہر کسی کی ذاتی پسند کا تعلق ہے ۔ اس لیے آپ دونوں میں سے ایک کو ترجیح دیں گے اور دوسری چھوڑ دیں گے۔

اس میں ہر وہ چیز آ جاتی ہے جس کا آپ کی ذات کے ساتھ تعلق  ہو اور انتخاب کے لیے مختلف آپشنز موجود ہوں۔ اور انتخاب کا نفع نقصات آپ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔

معاشرتی ترجیحات:۔

اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں۔

آپ اپنے شہر میں امداد حاصل کر کے مثلاً ایک ہسپتال تعمیر کروانا چاہتے ہیں۔ اسی دوران آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی یہ کام پہلے سے ہی کر رہا ہے ۔ اور وہ کافی امداد اکٹھی کر چکا ہے۔ اب آپ کے پاس دو آپشنز ہیں ۔ یا تو آپ الگ سے اپنی تحریک کا آغاز کر دیں یا اسی تحریک کی جو پہلے سے چل رہی ہے معاونت کریں۔ اگر آپ پہلی بات کو منتخب کرتے ہیں تو اس میں آپ کی ذات پہلے شامل ہو جاتی ہے۔ اور اگر دوسرے پر عمل کرتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے معاشرہ کو ترجیح دی ۔ اگر آپ اپنی الگ سے تحریک چلائیں گے تو دوسری تحریک میں آپ رکاوٹ ڈال رہے ہوں گے۔

پس اس قسم کی ترجیحات میں دوسرے کا نقصان ہو سکتا ہے ۔

میں ایک اور مثال دیتا ہوں ۔

فرض کریں آپ ایک استاد ہیں ۔ طلباء کے پیپر نزدیک ہیں ۔ آپ کا نصاب ابھی کافی پڑا ہے جو امتحانات سے قبل مکمل ہونا بہت ہی مشکل ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کون سی چیز اہم ہے اور کون سی نہیں ۔ آپ کی رائے میں آپ کو نصاب مکمل پڑھانا چاہیئے ۔ لیکن دوسرا آپشن یہ ہے کہ طلباء کی بھلائی کے لیے اور وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ صرف اہم چیزیں پڑھا دیں اور امتحانات کے نزدیک آنے کی وجہ سے امتحانات کی تیاری کروائیں ۔ آپ ان دونوں باتوں میں سے کس کا انتخاب کریں گے۔ اگر آپ پہلی بات چنتے ہیں تو اس سے طلباء کو نقصان ہونے کا خدشہ ہے ۔

اگر یہی آپشنز میرے پاس ہوں تو میں دوسری بات کو ترجیح دوں گا۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟

1:۔ اگر میں آخری دنوں میں بھی بقیہ نصاب مکمل کرواتا رہوں گا تو طلباء کی توجہ اہم چیزوں سے ہٹ جائے گی اور وہ تیاری کے لحاظ سے اہم چیزوں پر توجہ کرنے کی بجائے کہیں اور بھٹک سکتے ہیں ۔

2:۔  نیز ان کو کلاس میں سوالات کرنے کا وقت نہیں ملے گا کیونکہ مجھے تو نصاب مکمل کروانا ہے۔

3:۔ نصاب مکمل کرونا پورے سا ل کا ہدف تھا ۔ اب امتحانات کی تیاری کا وقت ہے۔ یہ میری ذمہ داری تھی کہ کم از کم ایک ماہ قبل نصاب مکمل کروا کر دہرائی شروع کرواتا۔

4:۔ اہم چیزیں نصاب سے یاد کرواؤں گا تو طلباء کی تیاری اچھی ہوگی اور وہ امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں گے ۔ اور جو اہم حصہ نہیں تھا وہ بعد میں بھی طلباء پڑھ سکتے ہیں ۔

اختتام مضمون

ہمیشہ اس بات کو ترجیح دیں جس سے خدا راضی ہو ۔اور ہمیشہ بہترین آپشن کو چنیں۔اور یاد رکھیں کہ بنیاد تمام تر ترجیحات کا مرجح وہ ذات برحق ہی ہے جس نے تمام چیزوں کے حقوق قائم کیے ہیں۔

(کالم نگار: اردو)

Featured Post

مجھ پہ جو بیتی : اردو کی آپ بیتی

  اردو کی آپ بیتی تمہید چار حرفوں سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔ لشکری چھاؤنی میرا جنم بھوم [1] ہے۔ دوسروں کو قدامت پہ ناز ہے اور مجھے جِدَّ...