ہوسٹل کی زندگی
انسان کو نیست سے ہست میں آ جانے کے ساتھ ہی زیست کے تمام ہو جانے تک بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ہر روز ایک نیا ہدف نئی مشکلات کے ساتھ اس کا منتظر ہوتا ہے. کچھ میں تو اس کے عزیز و اقارب اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور کچھ میں وہ تنہا ہوتا ہے.اور کیونکہ ہم غاروں میں نہیں رہتے بلکہ معاشرے میں رہتے , لوگوں سے کسی نہ کسی طرح ہمارا واسطہ رہتا ہے اس لیے اکثر اہداف ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم دوستوں کے ساتھ مل کر حاصل کرتے ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مضبوط عزم و ہمت کے پیکر بن جائیں اور خواہ کیسی ہی مشکل آ جائے اور کیسی ہی بلا نازل ہو جائے ہم ثابت قدم رہیں. تجربہ سے اکثر اس بات کے شاہد ہوں گے کہ جو ہدف جتنا مشکل سے حاصل ہوتا ہے اس کے بعد اتنا ہی انسان مسرت اور فرحت محسوس کرتا ہے. جیسے ہائیکنگ کرنے والے جانتے ہیں کہ پہلی دفعہ ہائیکنگ کرتے ہوئے وہ کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتا ہے کہ آئندہ کبھی ہائیکنگ نہیں کروں گا لیکن جب وہ واپس آتا ہے تو وہ ان دنوں کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتا ہے. اور مقرر جانے کی خواہش کرتا ہے.
میری زندگی بھی ان تجربوں سے لطف اندوز ہوئی. میری زندگی کا سب سے مشکل اور سب سے بڑا ہدف سادہ اور شریف ہونے کی حالت میں ہوسٹل رہنا تھا اور وہ بھی سات سال. ہم کچھ دوست ایک یونیورسٹی محض حصول علم کی خاطر داخل ہوگئے۔ یہ یونیورسٹی دنیا کی منفرد اور انوکھی یونیورسٹیز میں سے ہے.کوائف جمع کروانے کی غرض سے ہمیں یونیورسٹی جانا تھا
لیکن جب ہم پہنچے تو پہلی ہدایت اور یونیورسٹی میں رہنے کی شرط یہ ٹھہری کہ بوری بستر اُٹھا کر آج ہی ہوسٹل منتقل ہو جائیں۔یہ ہدایت سنتے ہی ہمارے معصوم, خوبصورت اور پررونق چہروں پر خزاں آ گئی اور وہ چار دن سے پڑے سالن کی طرح باسی ہو گئے اور جیسے روٹی پر پھپھوندی لگ گئی ہو۔ افسردہ حال گھر پہنچ کر بادل ناخواستہ, لاشعور میں بیٹھے الفاظ کو جوڑ کر اور تسلی دیتے ہوئے کہ وہ پریشان نہ ہوں یہ بات اہل خانہ کو بتائی کہ مجھے ہوسٹل رہنا پڑے گا. لیکن یہ دیکھ کر میرا دل چکنا چور ہوگیا کہ میرے اہل خانہ کے چہرے خوشی سے چمک دمک اٹھے ہیں اور شکرانہ ادا کرنے کے انہوں نے عہد و پیمان باندھ لیے ہیں۔ میرے دوستوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا. نہ چاہتے ہوئے بھی بوری بسترا اُٹھایا اور ہوسٹل شفٹ ہوگئے۔۔۔جاری

![درخت کی آپ بیتی 🙏🙏😭😭 پہیلی نمبر 1 اِک ذرہ سے جنم لے کر مثل جبل [1]بن جاتا ہوں ۔چار حرفوں کی تالیف سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔میں سطح زمین سے نیچے بھی ہوں اور اوپر بھی۔مجھے خداوند نے بے جان پیدا نہیں کیا ۔میرا مولد[2] ہی میرا گھر،میرا ٹھکانا ہے ۔لیکن بسا اوقات مجھے خلق خدا گھربدر بھی کردیتی ہے۔نوجوانی تک مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہوتا ہے۔ میں وجود میں آنے سے فنا ہونے تک نفع بخش اور سود مند ہوں۔میں حسین بھی ہوں اور حسن بخش بھی۔آلودگی سے مجھے نفرت ہے۔میرا شوخ رنگ بھی قابل دیداور ہلکا ہلکا رنگ بھی تفرید۔میں زہر بھی ہوں اور اکسیر بھی۔اطباء مجھ سے مستفید ہوتے ہیں ۔ بزرگ اور ولی مجھ سے سبق اور نمونہ حاصل کرتے ہیں اور مجھے وعظ میں استعمال کرتے ہیں ۔ میری مثالیں کلام الٰہی میں بھی ملتی ہیں۔ مختلف رنگ مجھ سے جنم لیتے ہیں۔مٹھاس بھری،ترش اورکچھ کڑوی چیزیں میرے توسط سےمیسر ہیں۔ میری زیست کا انحصار پانی اور روشنی پر ہے ۔ میں بارشوں کا سبب بنتا ہوں۔میں مرنے کے بعد بھی بے شمار مخلوق کا معاون ہوں ۔ امیر و غریب کا رزق مجھ سے بندھا ہوا ہے ۔ میں ہر گھر میں ہوں ۔ مجھے پیس کر سانچے میں ڈھالنے کے بعد علماء کی قلم کی سیاہی کو مقید کیا جاتا ہے ۔مجھے چیر کر اور کاٹ کر مختلف چیزوں میں ڈھالا جاتا ہے۔ بیٹھنے ،لیٹنے اور بوڑھوں کے سہارے کا م آتی ہوں۔گھر کا پردہ اور اس کی حفاظت مجھ سے ہے۔ جب مجھ سے کوئی اور کام نہ بن پڑےتو میں کھانے اور چپاتی بنانے اور ٹھٹھرتی ہواوں اور برف باری میں حرارت اور گرمائش کے کام آجاتا ہوں۔میری کھال[3] دانتوں کو صاف کرتی ہےاوربال صحن،گلی ، کوچوں کو صاف کرتے ہیں۔میں انسانوں اور جانوروں کی ہی نہیں بلکہ کیڑوں مکوڑوں کی بھی خوراک بنتا ہوں۔ لیکن !ہائے افسوس! بہت سے ابنائے آدم سب کچھ حاصل کرکے بھی میری زیست سے نفرت کرتے ہیں۔میرے وجود سے ان کے زعم میں زمین تنگ پڑتی ہے اور اسراف ہوتا ہے۔ (کالم نگار:۔ اردو) نوٹ:۔ جن قارئین کو میرا نام معلوم ہے وہ کمنٹ میں لکھ دیں۔ [1] پہاڑ [2] جائے پیدائش [3] تمثیلی طور پر استعمال کیا ہے](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhX3Jk8yXlROKpNkOUt_-vg0pDYT8whv__KrQHttOe2hGVKnU4unIvqTSnOFSR_qPEFeic6Ow5eQNx4DbmhXTlFxCc1krMc-fAVQKCBhiG0pifiFX9aLjEhMrrms62Fr4hCrCchCB8CXk8/w400-h248/oExtne.jpg)

