جمعہ، 19 فروری، 2021

ہوسٹل کی زندگی

انسان کو نیست سے ہست میں آ جانے کے ساتھ ہی زیست کے تمام ہو جانے تک بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ہر روز ایک نیا ہدف نئی مشکلات کے ساتھ اس کا منتظر ہوتا ہے. کچھ میں تو اس کے عزیز و اقارب اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور کچھ میں وہ تنہا ہوتا ہے.اور کیونکہ ہم غاروں میں نہیں رہتے بلکہ معاشرے میں رہتے , لوگوں سے کسی نہ کسی طرح ہمارا واسطہ رہتا ہے اس لیے اکثر اہداف ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم دوستوں کے ساتھ مل کر حاصل کرتے ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مضبوط عزم و ہمت کے پیکر بن جائیں اور خواہ کیسی ہی مشکل آ جائے اور کیسی ہی بلا نازل ہو جائے ہم ثابت قدم رہیں. تجربہ سے اکثر اس بات کے شاہد ہوں گے کہ جو ہدف جتنا مشکل سے حاصل ہوتا ہے اس کے بعد اتنا ہی انسان مسرت اور فرحت محسوس کرتا ہے.  جیسے ہائیکنگ کرنے والے جانتے ہیں کہ پہلی دفعہ ہائیکنگ کرتے ہوئے وہ کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتا ہے کہ آئندہ کبھی ہائیکنگ نہیں کروں گا لیکن جب وہ واپس آتا ہے تو وہ ان دنوں کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتا ہے. اور مقرر جانے کی خواہش کرتا ہے.

 ہوسٹل کی زندگی

انسان کو نیست سے ہست میں آ جانے کے ساتھ ہی زیست کے تمام ہو جانے تک بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ہر روز ایک نیا ہدف نئی مشکلات کے ساتھ اس کا منتظر ہوتا ہے. کچھ میں تو اس کے عزیز و اقارب اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور کچھ میں وہ تنہا ہوتا ہے.اور کیونکہ ہم غاروں میں نہیں رہتے بلکہ معاشرے میں رہتے , لوگوں سے کسی نہ کسی طرح ہمارا واسطہ رہتا ہے اس لیے اکثر اہداف ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم دوستوں کے ساتھ مل کر حاصل کرتے ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مضبوط عزم و ہمت کے پیکر بن جائیں اور خواہ کیسی ہی مشکل آ جائے اور کیسی ہی بلا نازل ہو جائے ہم ثابت قدم رہیں. تجربہ سے اکثر اس بات کے شاہد ہوں گے کہ جو ہدف جتنا مشکل سے حاصل ہوتا ہے اس کے بعد اتنا ہی انسان مسرت اور فرحت محسوس کرتا ہے.  جیسے ہائیکنگ کرنے والے جانتے ہیں کہ پہلی دفعہ ہائیکنگ کرتے ہوئے وہ کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتا ہے کہ آئندہ کبھی ہائیکنگ نہیں کروں گا لیکن جب وہ واپس آتا ہے تو وہ ان دنوں کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتا ہے. اور مقرر جانے کی خواہش کرتا ہے.
میری زندگی بھی ان تجربوں سے لطف اندوز ہوئی. میری زندگی کا سب سے مشکل اور سب سے بڑا ہدف سادہ اور شریف ہونے کی حالت میں ہوسٹل رہنا تھا اور وہ بھی سات سال. ہم کچھ دوست ایک یونیورسٹی محض حصول علم کی خاطر داخل ہوگئے۔ یہ یونیورسٹی دنیا کی منفرد اور انوکھی یونیورسٹیز میں سے ہے.کوائف جمع کروانے کی غرض سے  ہمیں یونیورسٹی جانا تھا

لیکن جب ہم پہنچے تو پہلی ہدایت اور یونیورسٹی میں رہنے کی شرط یہ ٹھہری کہ بوری بستر اُٹھا کر آج ہی ہوسٹل منتقل ہو جائیں۔یہ ہدایت سنتے ہی ہمارے معصوم, خوبصورت اور پررونق چہروں پر خزاں آ گئی اور وہ چار دن سے پڑے سالن کی طرح باسی ہو گئے اور جیسے روٹی پر پھپھوندی لگ گئی ہو۔ افسردہ حال گھر پہنچ کر بادل ناخواستہ, لاشعور میں بیٹھے الفاظ کو جوڑ کر اور تسلی دیتے ہوئے کہ وہ پریشان نہ ہوں یہ بات اہل خانہ کو بتائی کہ مجھے ہوسٹل رہنا پڑے گا. لیکن یہ دیکھ کر میرا دل چکنا چور ہوگیا کہ میرے اہل خانہ کے چہرے خوشی سے چمک دمک اٹھے ہیں اور شکرانہ ادا کرنے کے انہوں نے عہد و پیمان باندھ لیے ہیں۔ میرے دوستوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا. نہ چاہتے ہوئے بھی بوری بسترا اُٹھایا اور ہوسٹل شفٹ ہوگئے۔۔۔جاری


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

if you have any doubts,please let me know

Featured Post

مجھ پہ جو بیتی : اردو کی آپ بیتی

  اردو کی آپ بیتی تمہید چار حرفوں سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔ لشکری چھاؤنی میرا جنم بھوم [1] ہے۔ دوسروں کو قدامت پہ ناز ہے اور مجھے جِدَّ...