سامنے جب چہرہ دلدار کا ہو
حسن کردار کا ہو، گفتار کا ہو
بس یہی روپ میرے یار کا ہو
جو دل کو بھائے وہی اچھا ہمیں
چاہے اس سے لاکھ گلہ اغیار کا ہو
تو ساتھ ہے پھر کیا تمنا کریں
موسم خزاں کا چاہے بہار کا ہو
اور کس کے خواب دیکھیں گے
سامنے جب چہرہ دلدار کا ہو
بیچنا پڑے ایمان جس کے عوض
خاک فائدہ ایسے سنگھار کا ہو
کیا اچھا ہو کہ ہم بے گھر ہوں
اور نصیب سایہ تیری دیوار کا ہو
خدا کرے ہم مر جائیں اس گھڑی
وقت جب غیر سے تیرے اقرار کا ہو
جس کی دوا تیری دید ہو، شنید ہو
علاج کچھ نہ کچھ تو ایسے بیمار کا ہو
نثر میں ابھی طفل مکتب ہے ناسق
چلو مقابلہ اک تحریر اشعار کا ہو
(زاہد ناسق)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts,please let me know