غزل (زاہد ناسق)
ذکر غیر کا تیری زباں سے اچھا نہیں لگتا
مکیں کو نکالے مکاں سے اچھا نہیں لگتا
یقیں کر میں خود کو یکسر بدل ڈالوں گا
بتا! میں تجھے کہاں سے اچھا نہیں لگتا
کرنا ہے گر میری محبت کا یقیں توکر لے
گزروں ہر بار امتحاں سے اچھا نہیں لگتا
تھی انتہا تیرے ہاتھوں مقدر سو کر ابتدا
تیرنکلے غیر کی کماں سے ، اچھا نہیں لگتا
یہ جو پیوست ہو گیا انا کا شجر ہمارے بیچ
اکھڑ جائے کاش درمیاں سے ، اچھا نہیں لگتا
کرتا ہوں صرف اجڑے ہووں سے الفت
موسم کوئی زیادہ خزاں سے اچھا نہیں لگتا
کرتا ہے فرش کا مکیں ہو کر عرش سے لڑائی
ناسق گلہ باربار آسماں سے اچھا نہیں لگتا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts,please let me know