اس کا وعدہ فقط وعدہ ہی رہا
پھٹا ہوا پہنے اک لبادہ ہی رہا
رنگینی میں بھی سادہ ہی رہا
کرتا رہا جو دوسروں کو مکمل
زندگی بھر وہ خود آدھا ہی رہا
اب کسی اور آنگن میں چمکتا ہے
اپنا کہنے جس کو ارادہ ہی رہا
سنا ہے آجکل ہواؤں میں اڑتا ہے
اک میں ہوں کہ پاپیادہ ہی رہا
افسوس کیا نہ اس نے پاسِ وفا
اس کا وعدہ فقط وعدہ ہی رہا
ڈرتا تھا وہ شخص خسارے سے
عشق میں بھی مقصد افادہ ہی رہا
نہ ہو وصال، تو کہاں کم ہوتا ہے؟
عشق تھا ناسق، سو زیادہ ہی رہا
(زاہد ناسق)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts,please let me know