حجاب میں
چاہا تھا یہ معاملہ ہوتا حجاب میں
لیکن کوئی تھا بن گیا ہڈی کباب میں
کمسن ہیں شاید اس لیے گفتار کی ہمیں
جرأت کہاں ہے شوکتِ عزت مآب میں
کرتا اگر بہار کا گُلچین اعتبار
پڑتے کبھی نہ بلبل و گل اِس عذاب میں
ایسا قدم اُٹھانے سے پہلے یہ سوچنا
گزرے نہ پھر کسی کی عُمَر اضطراب میں
مجھ سے تحفظات کا دعوٰی عجیب تھا
یہ ڈر کہ میں مِلا دوں گا عزّت تراب میں
تشہیر کر رہا ہے یہ "منہ پھٹ" جہان میں
لو، چھا گئے ہیں آپ بھی حُسنِ خطاب میں
جیتے رہے عوام کی مانند آپ میں
دیکھا مجھے ہے آپ نے کب آب و تاب میں؟!
وحشت سے تنگ دل نے یہ چاہا ہے بارہا
کِردار سارے کھول دوں جو ہیں نقاب میں
گرمی ملی مزاج کی ہم کو وِراثتًا
*شاہد* کو بھول کر بھی نہ لانا عتاب میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts,please let me know