ہزج مسدس
وہ مجھ کو آزمانا چاہتا ہے
دلوں کو پھر ملانا چاہتا ہے
وہ کاغذ پہ سنہرا دل بنا کر
اسی سے دل لگانا چاہتا ہے
مجھے دے کر وہ عنوان نغمگی کا
کسی کو گنگنانا چاہتا ہے
اٹھا کر قہر اپنی خوش روی سے
مری ہستی مٹانا چاہتا ہے
اندھیرا کر کے اپنے گیسووں کا
دیئے کی لوبڑھانا چاہتا ہے
عجب پاگل ہے اک روتے ہوئے کو
وہ ہنس کر ورغلانا چاہتا ہے
بنا کر جال اپنی چلمنوں کا
مجھے اس میں پھنسانا چاہتا ہے
مجھے کہتا ہے مقطع زندگی کا
نتیجہ شاعرانہ چاہتا ہے
(عتیق دانش۔ لاہور)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts,please let me know