سھل ممتنع
بڑی باغ دل کی یہ ویرانیاں ہیں
سجیں گل کی چہرے پہ حیرانیاں ہیں
کہا یہ ’’ جگر‘‘ نے جگر خون کر کے
جدھر دیکھتا ہوں پریشانیاں ہیں
ملائک نے کھولے جب اعمال میرے
ملیں ہر ورق پر پشیمانیاں ہیں
دخولِ غمِ روزگار اپنے گھر میں
مسرت، خوشی پر تو دربانیاں ہیں
فقیہ توانا جدھر چاہے گھومے
نحیفوں پہ واعظ نگہ بانیاں ہیں
اگرچہ کہ ہیں بادباں اپنے خستہ
اور اس پر سمندر میں طغیانیاں ہیں
اندھیروں نے قسمت لکھی ہے ہماری
اور ان کے مقدر میں رعنائیاں ہیں
ابھی تک مِلن کی کرن اک ہے باقی
ابھی تک ہماری یہ نادانیاں ہیں
بضد ہیں وہ دانش گریزاں بھی ہم سے
ہماری طبیعت میں جولانیاں ہیں
(عتیق دانش)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts,please let me know