غزل (محمد اسامہ شاہد)
نکلا نہیں وہ بام پہ، ہائے کدھر گیا؟
سیمیں بدن سا چاند فلک سے اُتر گیا
مجھ سے براہ راست ہی دریافت کیجئے
ذہنِ رسا میں کونسا خطرہ اُبھر گیا...
بھوکا جو ایک وقت کی روٹی نہ پا سکا
میسج مِلا نہ کال، مَیں فاقوں سے مر گیا
اس بے نیاز موسمِ گلشن کو دیکھ کر
میری طرف سے پھول بھی شام و سحر گیا
غفلت میں ہو کے بھی رہا میں باخبر، جناب!
یہ مت سمجھنا سو گیا تو بے خبر گیا
تیری بنائی چائے سے مستی نہ کیوں چڑھے
میرے بدن کی آخری رَگ تک اثر گیا
میسج پہ میرے دکھ بھرا پیغام دے گا وہ
کیسے کہوں کہ دوستو اب دردِ سر گیا
نخروں کا ہے وہ دوستو بے داد بادشاہ
شاہد بھی گنگناتا یہ ساری عُمر گیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts,please let me know