غزل (محمد اسامہ شاہد)
یُوں تو کوئل بھی ہو گونگی جو سُنے اسکی آواز
مِثلِ شحنائی مِرے دل میں بجے اسکی آواز
عقل کھوتی ہے جب محوِ سُخن گوئی میں
گوش کو چُھو کے گزر جاتی ہے اُسکی آواز
کر لے محسوس کوئی لذّتِ شیریں لہجہ
لحظہ لحظہ نشہ آور لگے اُسکی آواز
میرے کانوں نے تھا نوش کِیا جامِ شہد
وقتِ گفتار جو پہنچی مجھے اُسکی آواز
شورِ محشر جو اُٹھائے مِرے دل کی وحشت
اِک عجب نیند سُلا دیتی ہے اُسکی آواز
دل میں 'شاہد' بھی یہ آس لیے بیٹھا ہے
چُھپ کے سُن لے کسی طرح سے اُسکی آواز
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts,please let me know