جمعہ، 19 فروری، 2021

تِرا احباب سے اپنے گِلہ کرنا نہیں بنتا

غزل (محمد اُسامہ شاہد)

 تِرا احباب سے اپنے گِلہ کرنا نہیں بنتا

کسی کے تلخ لہجے پر تِرا لڑنا نہیں بنتا

        

بھری محفل میں کوئی تم پہ جب اُنگلی اُٹھائے تو

تأسف سے کسی کے سامنے جُھکنا نہیں بنتا

             

تجھے ملتا ہے جو اک پُر تکلّف مسکراہٹ سے

تو ایسے شخص کو تیرا گلے لگنا نہیں بنتا

             

جہانِ سرد مہری میں، کُوئے بے مروّت میں

بِلا مقصد کسی سے پیار جتلانا نہیں بنتا


کسی کو خار ہے تم سے تو رکھے، تم کو کیا لینا؟ 

دبے لہجے میں دھمکی سے تِرا ڈرنا نہیں بنتا


مِرے آگے صمیمِ قلب کا دعوٰی جو کرتے ہو

تو پھر ثابت کرو ورنہ تو پھر کہنا نہیں بنتا


تمنّا دل میں جاگے تو اُسے فوراً سے دفناؤ

در و دیوار سُنتے ہیں ذکر کرنا نہیں بنتا 


تمہیں لگتا ہے یہ تم کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے؟ 

یہاں آنے سے پہلے ایسا دم بھرنا نہیں بنتا


کسی کو پیٹھ پیچھے وار کرنے میں مہارت ہو

تو ایسے دوستوں سے بے دھڑک مِلنا نہیں بنتا


تمہیں جب علم ہے ہمدم تِرا کوئی نہیں، تو پھر

ہر اِک کو دردِ دل کی داستاں لکھنا نہیں بنتا


جو ہم خونِ جگر سے داستاں تیری لکھیں شاہد

تو ہم سے خود بسا اوقات پڑھ سکنا نہیں بنتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

if you have any doubts,please let me know

Featured Post

مجھ پہ جو بیتی : اردو کی آپ بیتی

  اردو کی آپ بیتی تمہید چار حرفوں سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔ لشکری چھاؤنی میرا جنم بھوم [1] ہے۔ دوسروں کو قدامت پہ ناز ہے اور مجھے جِدَّ...