غزل (محمد اسامہ شاہد)
شہرِ بُتاں میں ناگہاں طُوفان آ گیا
سب کہہ اُٹھے یہ کون ہے انجان آگیا
سودا ہؤا جو حُسن کا بازارِ عیش میں
ہاتھوں میں لے کے ہر کوئی ایمان آ گیا
محفل میں اہلِ علم کی اپنا ہے یہ مقام
نظریں بتا رہی تھیں کہ نادان آ گیا
اپنے تصورات کی دنیا میں کھو کے ہم
بیٹھے ہی تھے کہ آپ کا فرمان آ گیا
خاطر تواضع آپ بھی کرتے بہت ہیں، ہم
جانیں کبھی جو آپ کے مہمان آ گیا
محفل سجائے شہر میں بیٹھا جو خوبرُو
جو بھی گیا سو لَوٹ کے حیران آ گیا
چہرہ بِلا نقاب تھا قسمت سے ایک دن
جھونکا ہَوا کا دید کے دوران آ گیا
سوچا کہ لوں مَیں نام تمہارا ہزار بار
حائل تمہاری یاد میں نسیان آ گیا
شاہد قوافی باندھ کے لکھنے کو تھا غزل
ذہنِ رَسا میں اَور ہی عنوان آ گیا
سوچا کہ لوں میں نام تمہارا ہزار بار
جواب دیںحذف کریںحائل تمہاری یاد میں نسیان آ گیا