جمعرات، 18 فروری، 2021

سیرِ گلشن کیلئے جب وہ روانہ ہو گیا

غزل(محمد اسامہ شاہد)

سیرِ گلشن کیلئے جب وہ روانہ ہو گیا

تب سے لالہ زار کا ہر گُل دیوانہ ہو گیا


یاد پڑتا ہے کہ حائل اُسکے ذکرِ حُسن میں

آفتاب و ماہ کا وہ شاخسانہ ہو گیا


با ادب تسلیم کرنا سر جُھکا کر وہ ہمیں

جان لیوا زُلف کا چہرے پہ گرنا ہو گیا


خط میں کچھ تفصیل سے حالت عیاں کردوں، کہیں

پڑھ کے وہ یہ نہ کہے، "لو پھر بہانہ ہو گیا


کوئی ہم کو بھی بتائے بُت میں گر تاثیر ہے

ہم کو یونہی سر پٹختے اِک زمانہ ہو گیا


تیرِ مِژگاں نیم کش لے کر نکلنا صبحدم

دل بیچارہ طاقِ اَبرُو کا نشانہ ہو گیا


حُسن تو پہلے سے اُس کا مائلِ پرواز تھا

طُرفہ اِس پہ مہ جبیں کا مُسکرانا ہو گیا


مومِ کافوری پہ وہ داغِ حنائی دیکھ کر

کتنے عاشق مر گئے جب رخستانہ ہو گیا


دنیا بھی تو عارضی ہے، پھر برائے آرزو

کیوں بُتِ کافر سے اپنا دل لگانا ہو گیا؟


ہم سخندانی بیاں کرنے لگے اپنی تو وہ

بے خودی میں کہہ اُٹھے "شاہد سیانا ہو گیا


2 تبصرے:

if you have any doubts,please let me know

Featured Post

مجھ پہ جو بیتی : اردو کی آپ بیتی

  اردو کی آپ بیتی تمہید چار حرفوں سے میرا نام وجود میں آتا ہے۔ لشکری چھاؤنی میرا جنم بھوم [1] ہے۔ دوسروں کو قدامت پہ ناز ہے اور مجھے جِدَّ...